Elderly People of Pakistan

People say “old is gold” and usually use this phrase to refer to wisdom of old times.  What I think of it is “old gold is pure”.  Old coins, old cars, old-homes, old utensils, old fabrics, even old books are precious.  Or may be we are just used to valuing and honoring things of times when we were not present.

Old age in Pakistan was once regarded as symbol of family bonding.  Now it has become a curse.  That trust has lost its value.  We can see our elders past sixties disrespected at homes, admitted in adult-homes, Edhi centers, in mental hospitals or rolling on the streets begging for a piece of bread.  Haunted by their loneliness, they wait for someone or anyone who can just listen to what they want to say.  Their physical weakness doesn’t allow them to enjoy life as before.  All they want is attention, which can save them from the feeling of being neglected or ignored.

Truth is always bitter but for oldies it affects like a death sentence that their own children and relatives on whom they focused every second have no time for them in return.  The youth can’t be blamed at this point because they have to move forward for their life experiences and for their younger ones.

However, something must be done for aged people of our society.  Most of them don’t realize that they can be useful at this age.  May be they are still not matured enough to plan life at this age (that could be because they are not used to plan things) but have experience and stories of their time which they can share with others.  They can get rid of  negative feelings, depression, tension and the loneliness by helping the ones like them.

They can work as counselors as be awarded and rewarded for their services.  They can chat with each other, play board games, listen to each others’ stories, read newspapers or books and discuss the issues.  They can go to other institutions and spend some time with patients to relax them.  If they are educated, they can help children in reading or writing.  They can arrange social events at their places or in public parks.  They can help in neighborhood libraries, Montessori and schools for couple of hours.  They can play a role in forming positive public opinion about grave issues.   They can be a good volunteer at mosques.

I read a hadith (missing the reference) that Prophet Muhammad (pbuh) said, “the one who wastes his youth time, is lost in his old age”.  I don’t take it like losing mental or physical abilities or capabilities but the chance of peaceful and satisfactory survival.

Allama Iqbal, Quaid-e-Azam, Ms. Fatime Jinnah, Begum Rana Liaquat Ali Khan, Ms. Fatima Surayya Bajya, Abdus-Sattar Edhi and his wife Bilqees Edhi and many others are the best examples.  They didn’t waste their youth time.   They didn’t work for themselves or to benefit their children or relatives.  They dedicated their lives for others.  For that reason, they are loved and respected by millions.  People remember them in prayers and in good words.  This is their reward in this world.  The best they will get in the Hereafter, inshallah.

ویسے  چاند, ستارے, زمین, آسمان, آلو, گوبھی تو الله نے جیسے بنادئے۔۔۔ لیکن لڈو اور گلاب جامن کودوسری شکل دی جاسکتی ہے ۔۔۔ کہ نہیں۔۔۔
خواتین پہ یاد آیا کہ امریکہ کبھی ایسی پارٹ ٹائم جابس بھی ہوتی تھیں کہ مثلا کسی ضعیف خاتون سے کچھہ گھنٹے باتیں کرنی ہیں اور بس۔۔۔ اصل میں وہ لوگ بھی زندگی دولت اور آسائشوں کے حصول میں گذار دیتے ہیں اور آخر میں جب سب کچھہ مل جاتا ہے تو اکیلے رہ جاتے ہیں۔۔۔ جو اختیارات انھوں نے خود  کو دیے ہوتے ہیں وہی انکی اولادیں بھی مانگتی ہیں وہ بھی  مصروف ہو جاتی ہیں۔۔۔ یہ بوڑھوں کے اداروں میں یا کبھی گھر پر خاموشی سے اپنے ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔۔۔ کچھہ خاموشی کی وجہ سے ذہنی مریض ہوجاتے ہیں۔۔۔ انکے لئے بات کرنے والوں کو ڈھونڈا جاتاہے۔۔۔
ہمارے ہاں بھی حالات مختلف نہیں۔۔۔ صرف فرق یہ ہے کہ ہماری خواتین ملازمت اور آسائشوں کے حصول کے بجائے ان مسائل میں زندگی ضایع کردیتی ہیں جن میں سے آدھے سے زیادہ خود انھوں نے ہی پیدا کئے ہوتے ہیں۔۔۔ انکی اولادیں بھی ان مسائل میں پھنس جاتی ہیں۔۔۔ کافی عرصہ تک توان دونوں یعنی والدین اور اولادوں کابھرم والدین اور بزرگوں کے حقوق والی حدیثوں کی وجہ سے رہ گیا۔۔۔ لیکن پچھلے بیس تیس سالوں میں جس بیدردی کے ساتھہ ہمارے ہاں اخلاقی روایات کو پامال کیا گیا, انسانیت کی تذلیل کی گئی, قومی یکجہتی کو ختم کیا گیا, اسلام سے دامن بچایا گیا۔۔۔۔۔۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چھوٹوںنے بھی بڑوں کا لحاظ ختم کردیا۔۔۔
عام گھریلو ماحول کے اخلاقی مجرموں نے  گلی محلوں سڑکوں اور پورے معاشرے پراثر ڈالا۔۔۔ توکرپشن عام ہوگئی۔۔۔ بدامنی اور خوف پھیلا۔۔۔ معاشی حالات بد سے بد تر ہوگئے۔۔۔ اسکے قصوروار صرف مرد نہیں۔۔۔ گھریلو خواتین اس جرم میں ان کی شریک ہوتی ہیں۔۔۔ کیونکہ گھر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہی تو مرد باہر نکلتے ہیں۔۔۔۔۔۔ خیر مختصرا یہ کہ اب ہمارے ہاں ضعیف لوگ ایدھی ہومز, پاگل خانوں یا سڑکوں پر بھیک مانگتے پائے جاتے ہیں۔۔۔
ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا, درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا۔۔۔ مجھے اقبال کے اس پیغام پرکوئی اعتراض نہیں۔۔۔ لیکن ہم کبھی جوانی میں یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہمیں بھی ضعیف ہوناہے لہذا ایسا نظام بنائیں جس میں ہمارے لئے ایک عزت کی جگہ موجود ہو۔۔۔ بڑھاپا تو خود سب سے بڑی غربت اور دردمندی کی علامت ہوتا ہے۔۔۔ اس میں اگرعزت نہ ہو تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔۔۔
ایک حدیث کبھی پڑھی تھی کہ ‘جو اپنی جوانی ضائع کرتا ہے, الله اسکا بڑھاپا برباد کردیتا ہے’۔۔۔۔۔۔ میرا دل کرتا ہے کہ ساٹھہ یااس سے زیادہ عمرکے تمام بوڑھے مرد عورتوں سے جوگھروں, سڑکوں, ایدھی سینٹرز یا ذہنی امراض کے ہسپتالوں میں ہیں۔۔۔ ان سے پوچھوں کہ پچھلی عمر میں کیا کیا جو اب یہ حالت ہے۔۔۔ ایک برے نظام کو پروش کرنے میں جو کردارادا کیا تھا اسکا انجام اورکیا ہو سکتا ہے۔۔۔ اور اب بھی کیا ارادے ہیں۔۔۔
یہ مفلوک, رشتہ داروں پراور معاشرے پر بوجھہ بنے بزرگ بہت کام آسکتے ہیں اور اپنی غفلتوں کا کفارہ ادا کرسکتے ہیں۔۔۔ ان کے پاس تجربہ ہوتا ہے, تاریخ ہوتی ہے جسے یہ دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں۔۔۔ جنکےپاس تعلیم ہے وہ بچوں کو پڑھا سکتے ہیں۔۔۔ جنکے پاس ہنر ہے وہ ہنر سکھا سکتے ہیں۔۔۔ گھروں بیٹھے بزرگ اولڈ ہومز یا دوسرے مراکز پر جاکر اپنی عمر کے لوگوں کا دل بہلا سکتے ہیں, انکے ساتھہ ملکر کوئی مشاعرہ یا کوئی اور تخلیقی تقریب کرسکتے ہیں۔۔۔
اس عمرمیں عام انسان کی ضروریات دو وقت کھانے, صاف ستھرے دو جوڑی کپڑوں اور ایک پرسکون کونے تک سمٹ آتی ہیں۔۔۔ جسمانی کمزوری اور کوی نہ کوئی بیماری کی وجہ سے مشقت والا کام نہیں کر سکتے۔۔۔ لیکن خالی بیٹھہ کراگلے پانچ, دس, پندرہ, بیس سالوں میں دنیا سے جانے کا انتظار کرنا بھی ایک طرح کی موت ہی ہے۔۔۔ ایسی زندگی جس میں سوائے حسرتوں, شکایتوں,  جھنجھلاہٹ, ٹینشن اور ڈیپریشن کے کچھہ نہ ہو۔۔۔
عمر کے آخری سالوں کو بہترین طریقے سے گذارنے کی مثالیں تو علامہ اقبال, قائداعظم, مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح, بیگم رعنا لیاقت علی خان, فاطمہ ثریا بجیا, عبدالستارایدھی صاحب, بلقیس ایدھی صاحبہ کی صورت میں موجود ہیں۔۔۔ لیکن یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنی جوانی کو ضایع نہیں کیا۔۔۔ صرف اپنی زندگی, خاندان اور رشتہ داروں کی بہتری پر وقت صرف نہیں کیا بلکہ ملک و قوم اور معاشرے کی تعمیر کابوجھہ بھی اپنے کندھوں پر اٹھایا۔۔۔ دنیا میں انکی جزا یہ ہے کہ لوگ انکی عزت کرتے ہیں, دعائیں دیتے ہیں, ان کی نیتوں اور خلوص پر شک نہیں کرتے۔۔۔آخرت میں بھی انکا مقام اعلی ہوگا انشاءالله۔۔۔
عام لوگوں کی بات کریں تو کچھہ لوگ امی, بابا, ماما اور مجاہد حسین صاحب جیسے بھی ملیں گے جنکا بڑھاپا مسلسل مصروفیت,فکر, خلوص, مدد, خدمت, اور عزم وحوصلے کا دوسرا نام ہے۔۔۔

About Rubik
I'm Be-Positive. Life is like tea; hot, cold or spicy. I enjoy every sip of it. I love listening to the rhythm of my heart, that's the best

2 Responses to Elderly People of Pakistan

  1. Pingback: Elderly People of Pakistan (via PIECEMEAL) « AHKath's Blog

  2. Pingback: Elderly People of Pakistan | Activities for older people

Leave a comment