Wastage of Limited Resources

بنگلہ دیش کی طرف سے دو ملین ڈالرز کی امداد کا سن کر  لگا کہ کسی نے منہ پر تھپڑ سا مارا ہے۔۔۔ وہ لوگ جن کا ہم نے ہمیشہ مذاق ہی اڑایا۔۔۔ کبھی انکی زبان کا, کبھی لباس کا, کبھی انکے رہنے سہنے کا۔۔۔  اپنے سے نیچی قوم سمجھا۔۔۔ آج وہی ہم سے ہمدردی کررہے ہیں۔۔۔ سیاستدانوں نے جو نفرتیں ہمارے دلوں میں ڈالیں کبھی انہیں کم کرنے کی کوشش ہی نہی کی۔۔۔ شاید اس تکبر ہی کا نتیجہ ہے کہ آج یہ دن دیکھنا پڑرہے ہیں۔۔۔

آج یہ بھی پتہ چل گیا کہ اپنی علاقائی زبانوں سے کسی حد تک واقفیت ضروری ہے۔۔۔ سالوں یہی جواب سننے کوملا کہ اسکا فائدہ کیا۔۔۔ کوئی ریسرچ تھوڑی کرنی ہے۔۔۔ ترقی, خوشحالی اور انسانیت کے لئے انگلش ضروری ہے اولیولزضروری ہے۔۔۔ چلو مان لیا۔۔۔ لیکن جولوگ یہ کر لیتے ہیں وہ ملک سے چلے جاتے ہیں۔۔۔ ملک کی ترقی خوشحالی انسانیت سب پیچھے رہ جاتی ہے۔۔۔ اب ان حالات میں کون سے انگریزوں کے پالتو اور او لیولز کام آئیں گے۔۔۔ کون انکی زبان میں انکو ہمت اور کچھہ کردکھانے کی باتیں بتائے گا۔۔۔ ایکدوسرے کی زبان سے اجنبی, ساتھہ بیٹھنے اور بات سننے کو تیار نہیں۔۔۔ اور توقع کرتے ہیں کہ ہم ایک قوم بن جائیں۔۔۔ الزام لگاتے ہیں کہ سیاستدانوں اورمولویوں نے عوام کو یرغمال بنالیا ہے۔۔۔ انھوں نے ایسا اسطرح کیا کہ انھی علاقوں میں سے اپنےگھناؤنےمقاصد کے لئے ایجنٹ چنےجو انکی زبان میں سیاسی یا مذہبی نظریات کاپرچارکریں۔۔۔ اس سیلاب نے ایک موقع دیا ہے کہ اس عوام کو کچھہ نئی زندگی کے طریقے سکھائے جائیں۔۔۔ وہ متاثریں جوکہ سمجھدار اورپڑھے لکھے ہیں مختلف کیمپس میں لوگوں کواور سامان کومنظم کر کے فوج او رینجرز کا کام آسان کرسکتے ہیں۔۔۔

یہ تصویریں ایک چھوٹے سے کارڈ کی ہیں جس پر آیت الکرسی اور دعائیں چھپی ہوئی ہیں۔۔۔ یہ سلسلہ بھی کئی سالوں سے چل رہا ہے۔۔۔ خاص طور پرہررمضان میں مختلف دینی ادارے اور خوشحال لوگ ہزاروں کی تعداد میں ایسے کارڈ اور فلائرز چھپواتے ہیں ثواب کی غرض سے یاپھر اسکے عوض کچھہ رقم۔۔۔ شاید کہ یہ ثواب ہوتا اگر اس قوم کے پڑھے لکھے لوگوں کو دین سیکھنے کی کوئی لگن ہوتی  اور جن کو  ہےانکو یہ سب زبانی یاد ہو تا ہے۔۔۔۔۔۔ غیر پڑھے لکھے لوگوں کے لئے اسکی اہمیت ایک سادہ کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں۔۔۔ پھریہ پیسے کا زیاں کیوں۔۔۔ ہمارے ثواب حاصل کرنے کا تصور صرف ہماری مرضی کا پابند کیوں ہوتا ہے وقت اور حالات کی مناسبت سے کیوں نہیں ہوتا۔۔۔ ان کارڈز وغیرہ پہ دس بیس ہزار روپے تو خرچ ہو ہی جاتے ہیں۔۔۔ کاغذ الگ ضایع ہو تا ہے۔۔۔ اس وقت کے حالات میں ایک ایک پائی قیمتی ہے۔۔۔ کسی ادارے یا فو ج کو دے دیں۔۔۔

پیسہ خرچ ضرور کریں کیوں کہ اسی سے اکانمی چلتی ہے۔۔۔ یہی رقم بچوں کے لئے نوٹ بکس اور پنسلوں پر خرچ کردیں۔۔۔ بیس ہزار میں پانی نکالنے کی بیس پمپس بن سکتی ہیں۔۔۔ یا کوئی بھی کام ہوسکتا ہے۔۔۔
سیلاب سے دو کروڑلوگ متاثر ہوئے ہیں۔۔۔ پندرہ کروڑ تو باقی ہیں۔۔۔ اس میں سے آدھے اگر بچے ہیں تو پھر بھی ساڑھے سات کروڑ باقی بچے۔۔۔ ان میں اگر تین کروڑ مرد اورساڑھےتین کروڑ عورتیں ہیں اور دوکروڑ خواتین غریب یا جاہل بے حس اور فتنہ فسادی ہیں تب بھی دیڑھ کروڑ پچ گئیں۔۔۔ عید کے ایک جوڑے کی قیمت کم از کم دو سے تین ہزار روپے تو ہوتی ہے۔۔۔ اور ہر خاتون دو سوٹ تو لازما بناتی ہیں۔۔۔ اگر اس مرتبہ وہ ایک سوٹ عید کا اور ایک سادہ بننالیں اورایک ہزار روپے متاثرین کو دےدیں تو تقریبا ساڑھے دس ارب روپے صرف اس عید پر جمع ہوسکتے ہیں۔۔۔ اس طرح کسی کو بہت زیادہ  قربانی بھی نہیں دینی پڑے گی۔۔۔ کاروبار وغیرہ بھی چلتے رہیں گے اور ایک بڑی رقم سے بہت کچھہ کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔
یہ سب مشکل نہیں۔۔۔ اگر پاکستان کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے۔۔۔ سمجھداراور باشعور لوگ قومی نغموں ک ذریعے یہ جذبات پیداکر سکتے ہیں۔۔۔ بس ذرا انڈیا کے پالتو رکاوٹ بنیں گے لیکن یہ وقت جاہلوں کی فکر کرنے کا نہیں ہے۔۔۔۔
پاک فوج اور پاکستان زندہ باد۔۔۔





About Rubik
I'm Be-Positive. Life is like tea; hot, cold or spicy. I enjoy every sip of it. I love listening to the rhythm of my heart, that's the best

Leave a comment