Education

University Education:

“A fool’s brain digests philosophy into folly, science into superstition, and art into pedantry. Hence University education.” George Bernard Shaw
There is only one point that convinces me to prefer madrassah education over the entire regular educational system in Pakistan (though I don’t believe in both of them) that at least madrassah students are certain about their knowledge and beliefs that they learn there. They have firm believe in their teachers and scholars and are ever ready to defend them. They are sure that their teachers guiding them to the right path.
While students of schools, colleges and universities are doubtful about their past, confused about what they are learning now, not sure about how will it benefit them in the future. As a result, they don’t respect their teachers and they don’t stand to defend them.

Socialization in Education: 

The idea of going through a process of socialization in educational institutions fails when students take no interest in discussing and solving community problems, most of the time even ignore their own parents and siblings after they finish their education. All they seem interested in getting married, having children, going abroad and live in isolation.

The concept of socialization in the educational system of Pakistan is limited to create a competitive environment for our children. Which finally leads them to a create a mess by ignoring social laws and to live selfish by neglecting others’ rights. That is the reason we see no respect for each other and no community bonding among our individuals.

انگریزی میں لکھتے لکھتےخیال آیا کہ آخر لکھہ کس کے لئے رہی ہوں۔ جس قوم سے میرا تعلق ہے وہ دنیا میں بدنام بہت ہے۔ لہذاانگریزتو توجہ دینگے نہیں۔۔۔۔۔ اور پھر انکے ہاں ایک سے ایک لکھنے والا موجود ہےاور اتنے ہی پڑھنے والے۔۔۔۔۔ ترقی یافتہ لوگ ہیں۔۔۔۔ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے سال میں ایک مرتبہ وہ اگر ہمیں پڑھیں بھی تو کیا پڑھیں۔ پاکستان کےسیاسی حالات یامعاشی حالات یا معاشرتی اقدار یا تعلیمی سرگرمیاں یا مذہبی انتہا پسندی یا ہماری اجتماعی بے راہ روی کی نت نئی کہانیاں۔۔۔ ان کہانیوں سےتو ملک سے باہر رہنے والے پاکستانیوں کو دلچسپی نہیں غیر ملکیوں کو کیا ہو گی۔۔۔۔۔

ملک میں رہنے والے وہ افراد جو انگریزی جانتے ہیں انھیں کدوبھی میری باتیں سمجھہ نہیں آتیں کیونکہ انکی  تعلیمی بنیاد اٹھارویں صدی کے انگریز شاعروں اور ناول نگاروں کی سوچ پر ہوئی ہوتی ہے۔ یا انگریزوں کے عطا کردہ انسانیت کےفلسفے پر۔۔۔۔ پھر بات یہ بھی ہے کہ یہ سیاستدانوں اور دینی لوگوں کے لئے بے ضرر ہوتے ہیں۔۔۔۔ انکے مطلب کا مصالحہ بھی موجود نہیں۔۔۔۔

انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں میں اب رہ گئے بالکل واجبی سی انگلش سمجھنے یا بالکل نہ سجھنے والے۔ انھیں میری واجبی سی انگلش سے کیا کام۔۔۔۔ انکے مطلب کی چیزیں گھٹیا ہندوستانی فلموں اور گانوں کی صورت میں انٹرنیٹ پر موجودہیں۔۔۔۔۔

باقی بچ گئی بے شعورعوام۔۔۔ جسکےبل پہ سارے سیاستدانوں اور دینی لوگوں کے کاروبار چل رہے ہیں۔۔۔۔  سیاستدانوں اور دینی لوگوں کی ذہنی ہم آہنگی اور ورکنگ کوآرڈینیشن یعنی کام کرنے کے باہمی طریقوں نے عام عوام کو اپنی ہی زندگی سے بیزارکردیاہے۔۔۔ وہ ملک وقوم کا کیا سوچیں گے۔۔۔

عجیب سی بات لگتی ہے کہ الله رسول اسلام قرآن کے لئی جان دینا انتہا پسندی کہلاتا ہے۔ لیکن بھٹو خاندان۔ زرداری نواز شریف۔ الطاف حسین۔ شاہی سید اور نہ جانے کتنے سیاسی اور دینی لیڈرز ہیں جنکی پارٹی یا جماعتوں کے لئے جان دینا شہادت ہے۔۔۔۔۔  دنیا بھر کا فساد مچا نے ۔ سارے زمانے کی کرپشن کرنے اور ملک وقوم کا پرچم بیچنے کے باوجود اتنا بڑا رتبہ۔۔۔۔ کاش کہ شہید ہونا اتنا ہی آسان ہوتا۔۔۔

ہماری روایات میں سے ایک یہ بھی ہےکہ جب ہمیں اپنے بچوں کو تہذیب نرمی محبت انسانیت سکھانی ہوتی ہے تو انھیں مشنری اسکولز میں ڈال دیتے ہیں یا باہر آکسفورڈ وغیرہ پڑھنے بھیج دیتے ہیں۔۔۔ شاید اپنے آپ سے ہر مسلمان بالکل ہی مایوس ہو چکاہے یاشاید اس جانوروں جیسے جینے پر صبرآ گیا ہے۔۔۔ لیکن جب زرداری خاندان کے بلاول زرداری کو جانوروں کی طرح گلا پھاڑ پھاڑ کر تقریر کرتے دیکھا تو انگریزی طریقہ تعلیم پرسے بھی اعتباراٹھہ گیا۔۔۔۔۔ جان چاہئے جان دینگے سر چاہئے سر دینگے۔۔۔۔۔ یہ شاید آکسفورڈ کا اس سال کا سلیبس تھا۔۔۔۔۔  سائیں ابن زرداری آپکا خالی سر لے کرکیا کرنا ہے۔ سر تو اسکا چاہئے جو آپکے سر میں باتیں بھرتا ہے۔۔۔۔۔

پاکستان کے مشنری اسکول بھی اداکاراور گلو کار ہی پیدا کرسکے۔ جہاں تک تہذیب سکھانے کاتعلق ہے فی الحال تو وہ بھی فیل ہو گئے۔۔۔۔ ہماری بلڈنگ ہی میں ایک فیملی کے پانچ بچے سینٹ جانز میں جاتے رہے ہیں۔ بڑا لڑکا اب بی کام پہلے سال میں ہے۔ عام جاہل مردوں کی طرح سڑک پر فخریہ تھوکتا ہے۔ بچوں کےکوڑا پھینکنے کے آداب بھی باقی قوم سے مختلف نہیں۔۔۔۔۔

ایک بات اس قوم کی بہت اچھی ہے۔ زندہ لوگوں کوکتنی ہی اذیتیں دیں۔ مرنے پر انکا سوگ ضرور منا لیتے ہیں۔۔۔۔

Yep, missionary schools have also failed in producing good citizens.  Muslims send their children to them so they will learn manners.  The family lives upstairs has six children.  Five of them go to St. Johns School.  The eldest son is now in B. Com part one.  Their street manners are no different than the usual kids.  He spits on the street.  Rest of the children throw garbage out of the balcony or in the duck.  I complained a couple of times and the mother lied on my face that it’s not her children.
Karachi’s Language:

The purpose of spending fourteen or sixteen years in an educational institution is useless if that degree makes you do something that an illiterate can also do and may be in a better way.

I always heard that education polishes your personality, purifies and organizes your thoughts, distinguishes your from an ignorant, helps you developing new ideas, enables you to express yourself in a positive way, etc.

Karachi was thought to be the city of educated people.  How did these educated people help the rest of the 70% illiterates around the country?  Did they deliver any positive message on Karachi’s behalf?  Who represents Karachi in Pakistan and on international level?

سوچا الطاف حسین سے ایم کیو ایم کی سرکاری زبان میں بات کریں۔۔۔ اس زبان کوسرعام کیا ہے ایم کیو ایم کے نائب روحانی پیشوامصطفے کمال اور  ایم کیو ایم اور جیو کی روح رواں بیوی جویریہ اور شوہر سعود نے۔۔۔۔

ویسے کیا خیال ہے۔۔۔ جویریہ اور سعود اپنی بیٹی کو یہ زبان سکھانا پسند کریں گے جو انکی پروڈکشنز میں استعمال کی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر قوم کے بچوں کو کیوں۔۔۔۔ شاید اسی طرح فن, قوم اور پاکستان کی خدمت کی جاتی ہے آجکل۔۔۔ تہذیب واخلاق بیچ کر۔۔۔

ابے الطاف, سن ریا ہے کہ نئیں۔۔۔ ابے لندن میں بیٹھہ کر بولےچلا جا ریا ہے بولےچلا جا ریا ہے بے تکا۔۔۔ ابے یہاں آ کر سب کے سامنے بات کر۔۔۔ مرد بن مرد۔۔۔ابے رشتہ ہے کیا اس زمین سے تیرا۔۔۔ دوسروں کے پاسپورٹ ہاتھہ میں لے کر تصویریں کھنچواتا ہے۔۔۔ پہلے دشمنی کیوں پالی جو اب اپنے آقاؤں کے قدموں میں پناہ لئے بیٹھا ہے۔۔۔ابے یہاں آ کر غور سے لوگوں کی بددعائیں سن۔۔۔ کب تک کراچی والوں سے ان کا روزگار چھینتا رہےگا سوگ کے بہانے۔۔۔ باز آجا باز آجا نئیں تو لوگ وہیں آکر تیری تکہ بوٹی بنائیں گے۔۔۔

کیسا لگا۔۔۔ نہیں اچھا لگا۔۔۔ لیکن کیوں۔۔۔ شکر کریں الو کاپٹھا نہیں کہا۔۔۔ مصطفے کمال کے منہ سے اتنی مرتبہ سنی کہ یہ گالی بھی مقدس لگنےلگی ہے۔۔

سوال یہ ہے کہ ناچنے گانے والوں پر۔۔۔ جن کا دین ایمان پیسہ ہوتا ہے,  جن کے نزدیک فن کی نہ کوئی سرحد ہوتی ہےنہ حد۔۔۔ کس حد تک اعتبار کیا جاسکتا ہے نظام کو بنانے کے لئے۔۔۔ یہ دوسروں کے لکھے ہوئے بول گانے اور دوسروں کے سیٹ کئے ہوئے اسکرپٹ پڑھنے کے عادی لوگ, دوسروں کے اشاروں پر رونے اور ہنسنے اوردوسروں کی تعریفوں کے محتاج لوگ۔۔۔ یہ بھلا قوم کو کیا سوچ دے سکتے ہیں۔۔۔ سوائے کہ عام  لوگوں کو اپنے فیشن, میک اپ, اداؤں, بے تکی باتوں, تیس کے بعد تین سال کے بچوں والی حرکتوں میں الجھا کر رکھیں۔۔۔

ان ذہنی مریضوں سے کوئی بھی سیاسی پاڑٹی کیا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔۔۔ شاید فنڈ ریزنگ۔۔۔ بس۔۔۔

ویسے بھی ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو یا تو تعلیم میں ناکام رہے یا تعلیم یافتہ بننے کا شوق نہیں ہوتا۔۔۔

اگر وحید مراد صاحب جیسے کامیاب لوگ بھی اس حسرت میں مر جائیں کہ ان کی ایم اے کی ڈگری کام نہ آسکی ۔۔۔ اگر معین اختر صاحب جیسی شخصیت یہ پوچھتی مرجائے کہ ہم کس قسم کے لوگ ہیں اور ہم نے کیا کیا۔۔۔ اگر مہدی حسن خان جییسا فنکار اپنی آخری عمر میں اپنے ہی فیلڈ کے لوگوں کی عیادت نہ پا سکیں۔۔۔ اگر محمدعلی صاحب جیسا سخی, نرم دل اور کامیاب انسان اپنی زندگی کے آخری سال اپنے محل کی قید میں اداس گزاردے تو لعنت ہے ایسی فیلڈ پر۔۔۔

لوگ کہتے رہے کہ پڑھےلکھے لوگ اداکاری گلو کاری میں آئیں گے تو فن ترقی کرے گا۔۔۔

نتیجہ یہ نکلا کہ اسکول کالج کے طلبہ وطالبات کی اصل فیلڈز سے توجہ ہٹ گئی۔۔۔ اورجو آئے ڈگریاں لے کر وہ بھی بندر کی طرح اس ڈگڈگی پر ناچنے لگے جس پر غیر پڑھےلکھے اداکار گلو کارناچتے رہے۔۔۔ اور آوازیں آئیں کہ بھئی مسئلہ یہ ہے کہ باشعور ہدایتکار اور لکھنے والے موجود نہیں۔۔۔

اور اصل مسئلہ ہے بھی یہی۔۔۔ لوگ بندر بن کر تماشہ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں لیکن کوئی ڈگڈگی بجانے والا نہیں بننا چاہتا۔۔۔

ہالی ووڈ کی فلمز دیکھہ کر بے وقوف انسان بھی اندازہ لگا سکتاہے کہ ہدایتکار پڑھا لکھا ہو تو کتے بلی اور بندروں تک سے اداکاری کروالیتا ہے۔۔۔ گلوکاری کے لئے ریاض کی ضرورت ہوتی ہے ڈگری کی نہیں۔۔۔ میڈم نورجہاں, ریشماں, نصیبو لال, علن فقیر ثبوت ہیں۔۔۔

مارننگ شو کی میزبانی  اور نئے نئے کپڑے پہن کرلہرانا, ادائیں دکھانا یعنی ماڈلنگ ۔۔۔ گھروں میں کام کرنے والی ماسی بھی کر سکتی ہے۔۔۔ ایسی بے تکی باتوں کے لئے میڈیکل کی سیٹ یاچودہ سالہ ڈگری ضایع کرنے کی کیا ضرورت ۔۔۔

اور تو اور چار پانچ گنے چنے گھسے پٹے شو بز کے لوگوں کو ایوارڈز بھی مل رہے ہوتے ہیں۔۔۔ بقول حمیرا ارشد کون دے رہا ہے کیوں دے رہا ہے ایوارڈز۔۔۔۔۔۔


EDUCATIONAL GANGSTERS:

The exams of B.A. Part I, Arts Group, began after a gap of more than 18 months.  The exams of 2010 are being taken in 2011.  First the result of intermediate came out six months later.  Then the registration date was announced after 16 months since the intermediate exams.  That was a long period for students to get prepared for their papers.  It’s only five subjects that they have to study.  Then they also get gap of five or ten days between each paper.

For me, this is all a waste of time.  The results of any year should be declared within three months after the examinations are over.  The students don’t need to pay for two kind of registrations (one is just the registration, the other one for examination).  As soon as the result is out, students can be given a month to do both (if it has to be two registrations) registrations at the same time.  That will save their time and they won’t lose their interest.  The gap between the papers shouldn’t be more than two or three days.  The invigilators should always be from other groups so they can’t help students in cheating.  Lecturers don’t teach in colleges for many good reasons.  They ask students to join their coaching centers in the evening.  They sell notes and guess papers.  They do private tutoring.  Some of them sell marks and positions and make extra income.  In several colleges, students are forced to fill out the form for a political party at the time of admission.  So students should raise their voice against this network of ‘educational-gangsters’.  This is for their own goodness.

The Arts Group consists of subjects such as Political Science, Sociology, Psychology, Education, Economy, Home Economics, International Relations, Library Science, Islamic History, Geography, Optional Languages; Bengali, Persian, French, Arabic. All these subjects are important.  There should be a precise up-to-date syllabus of each of these subjects, relevant to our society and our ideology.

بی اے سال اول آرٹس گروپ کے امتحان ڈیڑھ سال کے وقفے کے بعد شروع ہوئے  یعنی دو ہزار دس میں ہونے والے امتحانات  جنوری دو ہزار گیارہ میں ہوئے اور پرسوں ختم ہوگئے۔۔۔ گروپ کوئی بھی ہو, پانچ پرچے ہوتے ہیں یعنی پانچ مضامین, جسکی تیاری کے لئے تین سو پینسٹھہ دن کے علاوہ بھی چار چھہ مہینے زیادہ ہی دیے جاتے ہیں۔۔۔ سلیبس زیادہ نہیں ہے۔۔۔ سالوں پرانی کتابیں اور اس میں غیر دلچسپ اور غیر معیاری موضوعات اور اسباق۔۔۔ رٹا لگا نا ہو تو ایک مہینے میں تیاری ہو سکتی ہے۔۔۔ پھر پرچوں کے دوران پانچ دس دن کی چھٹی۔۔۔

پرسوں آخری پرچہ سیاسیات یا پولٹکل سائنس کا تھا۔۔۔ بہت کم لڑکیاں تھیں۔۔۔ کچھہ لڑکیاں دو گھنٹے بعد ہی نکل آئیں کچھہ چالیس منٹ پہلے۔۔۔ باہر آکر انھوں نے بتایا کہ پرچہ بڑا آسان تھا فورا کرلیا۔۔۔ بعد میں میری بیٹی نے بتایا کہ جو لڑکیاں بہت پہلے باہر آجاتی ہیں انکے پاس سے پھرے نکلتے ہیں۔۔۔ کسی کے اسکارف میں سے, کسی کے بالوں میں سے, کسی کے جوتوں سے, حتی کہ انڈرگارمنٹس میں سے پرچے نکلے, کسی نے ایڈمٹ کارڈ کے پیچھے لکھا ہوتاہے۔۔۔ مجھے یہ سمجھہ نہیں آئی کہ انھوں نے پچھلے پانچ سو پچاس دنوں کیا کیا۔۔۔ ایک مضون کے لئے اوسط ایک سو دس دن ملے۔۔۔ یعنی سوا تین مہینے۔۔۔ ہر ہفتے ایک سوال یاد کریں تب بھی پندرہ بیس سوال تو یاد ہو ہی سکتے ہیں۔۔۔ وہی لوٹ پھیر کر ہرسال آتے ہیں۔۔۔

خیر میرے نزدیک ہی تین لڑکیاں کوئی چالیس منٹ پہلے باہر آکربیٹھہ گئیں۔۔۔ ان میں سے ایک نے شکایت کی کہ ۔۔۔ لڑکیاں دوران امتحان کچھہ بتاتی نہیں, میں نے تو پیچھے حافظاؤں کے گروپ کو خوب سنائیں کہ آپ خود تو گرپ بنا کر ایکدوسرے کی مدد کر رہی ہو اور ہمیں کہہ رہی ہو کہ نقل بری بات ہے۔۔۔ اور ٹیچرز سے پوچھو تو کہہ دیتی ہیں ہمیں نہیں پتہ۔۔۔

باقی دونوں نے کہا کہ ہم جاب کرتے ہیں۔۔۔ ایک تو پرھنے کاموقع نہیں ملتا دوسرے تیاری کیسے کریں,  پھر امتحان والے دن کی چھٹی لینا۔۔۔

میں نے تھوڑی دیر ان کی باتیں سنیں پھر دخل اندازی کی۔۔۔ ان سے کہا کہ آپکے جوبھی مسائل ہیں اسکا مطلب یہ نہیں کہ آپکو امتحان والے دن نقل کی اجازت دے دی جائے, آپکے پاس سال بھر سے زیادہ ہوتا ہےتیاری کے لئے۔۔۔ رہا ٹیچرز کا نہ بتانا تو وہ نہیں بتاسکتیں کیونکہ انھیں کچھہ پتہ نہیں ہوتا اور اسکی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اساتذہ اپنے سبجیکٹس کے علاوہ کچھہ اور نہیں پڑھتے۔۔۔ اگر سائنس گروپ کے تھے تو انھیں آرٹس کا کیا پتہ۔۔۔ آرٹس گروپ کے مضامین میں سیاسیات, معاشیات, ایجوکیشن, نفسیات, عمرانیات وغیرہ شامل ہیں۔۔۔ یہ سارے مضامین دلچسپ بھی ہیں اور معاشرے کی بہتری کے لئے ضروری بھی۔۔۔ ان پر توخاص توجہ دینی چاہئے۔۔۔

میری باتیں سن کر وہ لڑکیاں وہاں سے اٹھہ کرچلی گئیں۔۔۔ لیکن میں یہ سوچ رہی ہوں کہ وہ کچھہ زیادہ غلط بھی نہیں تھیں۔۔۔

ہمارے ہاں اسکول کالجز کا رخ اوسط طبقے کے لوگ کرتے ہیں  جنکی زندگی مسائل سے بھری پڑی ہے۔۔۔ باقی دو طبقات کو نہ تعلیم سے دلچسپی نہ مسائل سے۔۔۔ اوسط گھرانوں کی لڑکیوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے شادی۔۔۔ اسی سوچ کے ساتھہ وہ بڑی ہوتی ہیں۔۔۔ میٹرک سے بھی پہلے انکے رشتوں کی تلا ش شروع ہوجاتی ہے۔۔۔ جب تک شادی نہ ہو پڑھتی رہتی ہیں۔۔۔ اگروالد کا انتقال ہو جائے, بھائی نکمے نکلیں, یا حالات خراب ہوں تو جاب شروع کردیتی ہیں پھر جاب کے مسئلے الگ۔۔۔ اگر ہمارے ہاں میٹرک کی تعلیم بھی معیاری ہو تو بات بن جائے۔۔۔ پھر گھروں کا ماحول, گھریلو خواتین کے موضوعات, کچھہ بھی تو علمی نہیں ہے۔۔۔

آئے دن کی تقریبات, مہمانداری, دوستانے, رسم وروایات,غیرملکی چینلز, انٹرنیٹ اور موبائل فونز کا غلط استعمال۔۔۔

جب تک خود کو ان چیزوں سے آزاد نہیں کریں گے کیسے وقت ملے گا صحیح کاموں کے لئے۔۔۔

About Rubik
I'm Be-Positive. Life is like tea; hot, cold or spicy. I enjoy every sip of it. I love listening to the rhythm of my heart, that's the best

Leave a comment