Politics

Karachi Walay – January 16, 2010

گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کےبعد دو مرتبہ حیدری مارکیٹ جانا ہوا۔۔۔ دونوں مرتبہ مارکیٹ بند تھی۔۔۔ میں نے رکشہ والے سےکہا کہ آپ بتادیتے سب بند ہے۔۔۔ کہنے لگا ہمیں بھی نہیں پتہ ہوتا کہ کب کہاں کیا بند ہے۔۔۔ کل بھی بازار سے واپسی پررکشہ میں بیٹھنے لگے تو وہ پریشانی میں فون پر بات کررہا تھا۔۔۔ میں نے پوچھا خیریت۔۔۔ تو کہنے لگا کہ حالات پھر خراب ہو رہے ہیں ۔۔۔ پھر وہ مختلف بازاروں کے نام بتانے لگا کہ بند کروادی ہیں۔۔۔ اسی طرح پرسوں جس رکشہ میں بیٹھے وہ رکشہ والے نے بھی ایک خاتون کو لے جانے سے انکار کردیا۔۔۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ میرے گھر سے میسج آیا ہے کہ گلستان جوہر نہ جانا حالات خراب ہیں۔۔۔ اس نے بتایا کہ بنارس کا علاقہ سرحد بن گیا ہے اور میں سرحد کے دوسری جانب رہتا ہوں۔۔۔ ٹارگٹ کلنگ سے چند گھنٹے بعد میں اپنی فیملی کو وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔۔۔ وہ تھوڑی دیر اے این پی کو قصوروار ٹھراتارہا۔۔۔ لیکن جب بات پٹھانوں پہ آئی تو میں نے کہا یہ ٹھیک ہے کہ پٹھانوں کے جینے کا انداز ہم سے مختلف ہے لیکن  ہم نے کسی کو کیاسکھا دیا۔۔۔

کراچی والے بھی تو پاکستان آنے کے بعد اپنی زندگی کے انداز نہ بدل سکے۔۔۔ کیا تہذیب ہے ہماری۔۔۔ سینکڑوں ہندوستانی قومیتوں میں بٹے ہوئے لوگوں کا بے ہنگم اور بے ضبط مجموعہ۔۔۔ کراچی والوں کے تو دلوں میں سرحدیں ہیں۔۔۔ انکے گھروں اور خاندانوں میں کیا ہو رہاہے۔۔۔ کیا سکھارہے ہیں یہ اپنے بچوں کو۔۔۔ ایک سلام کا جواب دینے کے لئے تو زبان بند ہوتی ہے باقی ہر بد تمیزی کروالو۔۔۔ نہ تعلیم سے دلچسپی, نہ اسلام سے, نہ پاکستان سے۔۔۔ ہاں انسانیت کے نام پر جتنا کرپشن ہے کروالو۔۔۔ خواتین کیا کرتی ہیں صبح سے شام۔۔۔ اور جو ظلم ہو تے ہیں ان پر تو صحیح ہوتے ہیں۔۔۔ کیونکہ یہ مظلوم نہ ہوں تو سب سے بڑی ظالم بن جاتی ہیں۔۔۔ شوہربھی میراغلام رہے, بیٹے بھی میرےحکم کے پابند, بھائی بھی مجھی کوبھریں۔۔۔ ورنہ یہ مظلوم ہیں۔۔۔ کبھی کراچی کی خواتین نے الله کے حقوق کے بارے میں سوچاہے۔۔۔
دوسرا غضب دینی جہلاء ڈھاتے ہیں۔۔۔ خواتین کو انسان کے بجائے عورت بنا کر پیش کرتے ہیں۔۔۔ چند کاموں پر اسے تسلی دے دیتے ہیں۔۔۔ شوہرکا حق زوجگی پورا کریں ورنہ فرشتے لعنت کرتے ہیں, بچے پیدا کریں تاکہ الله اور رسول محبت کریں, شوہر سے الگ گھر کا مطالبہ کرسکتی ہیں, ماں بن جائیں تو حق ہے کہ انکے کہنے پہ بیٹا اپنی بیوی کو طلاق بھی دے سکتا ہے اور بس۔۔۔۔
یہ نہیں بتاتے کہ جب عورت اتنی معذور اور بے بس بنادی جائے تووہ اپنے لئے ہی نہں دوسروں کے لئے بھی عذاب بن جاتی ہے۔۔۔ یہ نہیں بتاتے کہ مسلمان ملکوں کے زوال کے اسباب میں سے ایک خواتین کی اکثریت کا دینی, علمی اور ملکی وقومی معاملات سے لاتعلق ہونابھی تھا۔۔۔
کل ایک دکان پر تھوڑا انتظار کرناپڑا۔۔۔ انکے ہاں ایک آٹھہ نو سال کا لڑکا بھی کام کر رہا تھا۔۔۔ میں نے پوچھا کہ تم وہی ہو جو گاؤں سے آئے تھے۔۔۔ بولا نہیں گاؤں والے سب چلے گئے میں تو نئی کراچی کا ہوں۔۔۔ میں نے پوچھا کہ پڑھتے ہو۔۔۔ جواب دیانہیں۔۔۔ میں نے انکے بڑوں سے کہا کہ اسے تعلیم دلوائیں اور کچھہ نہیں تو میں پڑھادوں گی۔۔۔ ہنس کر کہنے لگے یہ نہیں پڑھ سکتا ہم پر گیا ہے, ہم بھی اسکول سے بھاگ جاتے تھے یہ بھی بھاگ جاتا تھا تو ہم نے ہٹالیا۔۔۔ ان میں سے ایک نے کہا میں نے ہاف میٹرک کیا ہے۔۔۔ میں نے کہا یہ ہاف میٹرک کیا ہوتا ہے۔۔۔ بولا پانچویں کلاس پاس۔۔۔ میں نے کہا آپ چاہتے ہیں کہ یہ بھی آپ کی طرح زندگی گذارے۔۔۔ تو بولے کیا خرابی ہے ہماری زندگی میں۔۔۔ میں نے کہا آپ نہیں چاہتے کہ اس زندگی میں بہتری آئے۔۔۔ تو وہ ہنس کر خاموش ہو گئے۔۔۔
انھیں شاید لفظ بہتر یا بہتری کا مطلب نہیں معلوم تھا۔۔۔ اور معلوم بھی کیسے ہو۔۔۔ اور وہ تعلیم کی طرف کیوں توجہ دیں۔۔۔ تعلیم دینے والوں اور تعلیم حاصل کرنے والوں میں انھیں اپنےسے کیا فرق نظر آتاہے۔۔۔۔ اسی طرح تھوکنا, کھانا پینا, چلنا پھرنا, اسی قسم کی بے سر وپا باتیں, وہی جینے کا انداز۔۔۔ اور انھی کی طرح سسٹم کا رونا گانا۔۔۔
پہلے میں نے سینٹ جونز اسکول کے بچے کو بڑوں کے انداز میں تھوکتے ہو ئے دیکھا۔۔۔ پھر جو فیملی کینیڈاسے آئی ہوئی ہے پچھلے سال سے, انکے پندرہ سالہ بیٹے کو اسی طرح تھو کتے ہو ئے دیکھا کیونکہ وہ بھی اب انھی اسکولوں میں پڑھ رہا ہے۔۔۔
اور اچھا ہی کرتے ہیں وہ جو بچوں کو اسکول نہیں بھیجتے۔۔۔ کیونکہ پرائیویٹ اسکولوں کے اونرز اور پرنسپلز ہیں ایجنٹ دشمنوں کے۔۔۔ اسلام اور پاکستان کے غدار۔۔۔ انکا مالی بوائے کاٹ ضروری ہے انکو پیسے پیسے کو ترسانا ضروری ہے۔۔۔ جاہل کم از کم اسلام اور پاکستان سے دشمنی تو نہیں کرتے… پڑھائی لکھائی کو بہانہ بنا کربھا گ تو نہیں جاتے۔۔۔

 

کیا ظلم ہے۔۔۔ حکومت مچھروں سے بچاؤ کے لئے مچھر دانیاں تقسیم کردے گی۔۔۔ کاروباری لوگ مچھر مارنے کی دوائیاں اور پروڈکٹس بنا کر کروڑوں کما لیں گے۔۔۔ عوام خودکو مچھروں سے کٹوا کٹوا کرمر جائیں گے۔۔۔ لیکن مچھروں کی پیدائش ختم کرنے اور صفائی ستھرائی کے انتظامات پر نہ حکومت اقدامات کرے گی۔۔۔ نہ کاروباری لوگ چاہیں گے کہ ختم ہو اور عوام کو تو خیر تمیز ہی نہیں اپنے اچھے برے کی۔۔۔

پرسوں ایک دکان پر گئی تو وہاں سات آٹھہ سال کے ایک نئے لڑکے کو دیکھا۔۔۔ گندے کپڑے۔۔۔ گندے بال۔۔۔ برا حال۔۔۔ میں نے اس سے پوچھا کہ آپ نہاتے نہیں, کنگھا نہیں کرتے, آپکے گھر میں کوئی بڑا نہیں جو آپکی دیکھہ بھال کرے۔۔۔اسی دکان پرکام کرنے والے ایک اور بڑے لڑکے نے کہا کہ یہ ٹنڈو الہ یار سے آیا ہے۔۔۔ بہت تیز ہے یہ تو ہمیں چلا دے۔۔۔۔۔۔۔ اتنی دیر میں مالک دکان نےاس سے کہا کہ چل پانی لاکردے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کہیں سے بھی آیا ہو اسکو تہذیب اور تمیز سکھانا آپکا فرض ہے۔۔۔ دوسری بات یہ کہ چالاکی یہ آپکی صحبت میں سیکھہ رہا ہے۔۔۔ اور اس بچے کو لائے ہیں تو اس کا حلیہ تو درست کردیں۔۔۔ اور ذرا میرے دوپٹوں کے پاس سے ہٹا دیں۔۔۔ دوسرے آدمی نے کہا اسکے ہاتھہ صاف ہیں۔۔۔ انکی بات سن کر میں کافی دیر ہنستی رہی تو وہ شرمندہ ہو گئے۔۔۔ میں نے ہنستے ہوئے ہی کہا کہ بچہ سر سے پاؤں تک میلا ہو رہا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ ہاتھ صاف ہیں۔۔۔۔۔۔ پھر میں نے اس بچے سے ہی کہا کہ بیٹا آپ خود ہی ان سے کہا کرو کہ ان سب کو آپ سے تمیز سے بات کرنی چاہیے۔۔۔
اسی دوران یہ بھی ہوا کہ ایک تین سال کی بچی روتی ہوئی ملی چیخ چیخ کر اپنی ماں کوپکاررہی تھی۔۔۔ مما چاہیے۔۔۔ شکر ہے بچی کو گلا پھاڑ کررونے کی عادت تھی۔۔۔ ورنہ  اتنی خوبصورت بچی کو رات کے وقت جب کہ بازار میں لائٹ بھی نہ ہو غائب کرنامشکل نہیں تھا۔۔۔ خیر پانچ منٹ بعد دیکھا کہ ایک خوبصورت سی خاتون بد حواسی کے عالم میں گرتی پڑتی آئیں۔۔۔ گود میں ایک سالہ بچی اور دو مہینے بعد ایک اور کی آمد کی آثار۔۔۔ پتہ چلا وہ تین سالہ بچی انہی کی تھی۔۔۔۔۔۔ اس دن جتنے بازار دیکھے وہاں ہر دوسری خاتون پریگننٹ اورانکے ہاتھہ میں ایک نو مولود ضرور تھا۔۔۔۔۔۔ پتہ نہیں وہ نانیاں دادیاں کہاں چلی جاتی ہیں جو بڑے ارمانوں کے ساتھہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی اولادیں دیکھنا تو چاہتی ہیں مگر دو منٹ انھیں رکھہ نہیں سکتیں۔۔۔ اور ماں باپ انھیں سنبھال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہیں۔۔۔
اور بازار میں اتنے چھوٹے بچوں کا کیا کام۔۔۔

 

Musharraf and Moin Akhtar – October 19, 2010

“Those whose efforts have been wasted in this life, while they thought that they were acquiring good by their works?….. They are those who deny the Signs of their Lord and the fact of their having to meet Him (in the Hereafter): vain will be their works, nor shall We, on the Day of Judgment, give them any weight…… That is their reward, Hell, because they rejected Faith, and took My Signs and My Messengers by way of jest.”…… Surah Al-Kahf, ayaat 104-106


دنیا میں جن قوموں کو ہم ترقی یافتہ سمجھتے ہیں ان کی کامیابی کی وجہ شراب زنا بے حیائی جؤا بے ہودہ ناچ گانا مذہبی کتابوں اور پابندیوں سے دوری نہیں بلکہ زندگی کے وہ اصول ہیں جو ہر نبی اور رسول کی تعلیمات کا حصہ رہے ہیں۔۔۔ اور نہ ہی یہ ان کی خوشیوں کی وجہ ہے بلکہ انھیں جیسے ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ ان گناہوں کی وجہ سے انکی زندگی بےمقصد اور بے لطف ہو گئی ہے وہ دین اسلام کی پابندیوں کو قبول کر لیتے ہیں۔۔۔ ایمانداری ہمدردی خوش اخلاقی صفائی نظم وضبط برداشت ۔۔۔۔۔ اور جب کوئی قوم پڑھی لکھی باشعور ہو تو وہ اپنے لیڈر میں یہی خصوصیات دیکھنا چاہتی ہے۔۔۔ فرق صرف اتنا ہوگا کہ ایسی قوم غیر مسلم ہے تو وہ شراب جوئے زنا ناچ گانے کو مائنڈ نہیں کرے گی کیونکہ یہ سب ان کے مذہب میں جائز ہے۔۔۔ لیکن اگر یہی باشعور قوم مسلمان ہے تو وہ کسی کو لیڈر چنتے وقت یہ دھیان ضروررکھیں گے کہ اس دوسری خصوصیات ہونے کے ساتھہ ساتھہ اسکا کردار ان غلیظ عادتوں سے پاک ہو۔۔۔

جب کوئی شخص خود لیڈر بننا چاہے یا کسی کے کہنے پر بنے۔۔۔ اس کی ذاتیات صرف اس حد تک ہونی چاہئیں کہ اسکوکھانے اور پہننے کو مل رہا ہو۔۔۔ باقی پسند ناپسند سے اسکا کوئی تعلق نہیں رہ جاتا۔۔۔ اور شاید ہمارے لیڈرز یہ کرکے بھی دکھادیں لیکن مسئلہ ہے ہماری قوم جس میں اصل جاہل اور پڑھے لکھے جاہل ایکدوسرے کے شانہ بشانہ مل کر ہر چیز کابیڑہ غرق کرتے ہیں۔۔۔

ہماری قوم نے جب کسی کو لیڈر بنانا ہوتا ہے تو سب سے پہلی برائی اپنے حق میں کرتے ہیں وہ یہ کہ اس شخص کی ذاتیات کو نظرانداز کردیتے ہیں۔۔۔ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ وہ شخص ان کے مخصوص حلقے یا زبان یا فرقے یا عقیدے یا کاروبار یا طرز زندگی کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا یا نہیں۔۔۔ ملک میں رہنے والے دوسرے لوگوں کے لئے وہ یا اسکی پالیسیز کتنی نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔۔۔ اگلے دس بیس پچاس سال میں ملک کی حالت تبدیل ہو سکتی کہ نہیں۔۔۔ اگلی دو تین نسلوں کو ہم سے بہتر ماحول مل سکے گا یا نہیں۔۔۔ جس شخص کو ہم لیڈر بنانے جا رہے ہیں اسکا کردار کیاہے تعلیم و تربیت کیسی ہوئی ہے۔۔۔ اسکا اپنا وژن کیا ہے۔۔۔ پالیسیز کیا ہیں۔۔۔ صرف ذاتی پسند اور ناپسند یا فائدوں کے لئے کسی شخص کو ساری قوم کے سر پر تو نہیں بٹھایا جا سکتا۔۔۔

پاکستانی عوام کی بد قسمتی یہ ہے کہ جو خود لیڈر بن کر سامنے آگئے یا بنا کر لائےگئے انھی کو مجبور ا برداشت کر لیا۔۔۔ ان کی اپنی زندگی میں کوئی اصول نہیں اسی لئے لیڈر بھی بے اصول چن لیتے ہیں اور بعد میں روتے ہیں کہ یہ کیسا نکلا۔۔۔۔ کراچی والوں کی ہی مثال لے لیں۔۔۔ زرداری کو برابھلا کہنے کے بجائے انھیں الطاف حسین کا گریبان پکڑنا چاہیے کہ کیوں فاروق ستار کو بٹھایا زرداری کے حق میں۔۔۔

بے شمار مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے مل کر پاکستان کو اس حال میں پہنچا دیا کہ پورا ملک مچھلی بازار لگ رہا ہے۔۔۔ نئی نئی جماعتیں بن گئیں لیکن طریقہ پرانا گھسا پٹا۔۔۔ ایک شخص کی تعریف نعرے بازی ہلڑ بازی جھوٹی جھوٹی جانثاری کی باتیں۔۔۔ نہ کوئی پالیسی نہ منصوبہ بندی نہ کردار سازی نہ تربیت۔۔۔ صرف ہنگامہ بازی۔۔۔۔
جمعہ کو حیدری جانا ہوا تو بازار بند تھا رکشہ والے نے کہا آج جمعے کے بعد کھلے گا کیونکہ ایم کیو ایم کی ریلی ہے اور وہ گاڑیاں پکڑ پکڑ کر ریلی میں شامل کراتے ہیں۔۔۔ میں نے کہا یہ غنڈہ گردی ہے سیاست تو نہیں۔۔۔ بولا اب تو مشرف صاحب تشریف لا رہے ہیں۔۔۔ میں نے کہا جی ہاں جو گلیاں رہ گئی ہیں وہ وہاں بھی شراب خانے کھلوادیں گے۔۔۔

اور یہ سچ بھی ہے۔۔۔ جب کوئی گناہ امیروں اور حکمرانوں کی عادت تہذیب اور فیشن بن جائے تو وہ اسے عوام تک لانے میں تاخیر نہیں کرتے۔۔۔ مشرف صاحب کے سپورٹرز توویسے بھی وہ ہیں جن کی زندگی ذاتی پسند ناپسند  ہلاگلہ ہوتی ہے۔۔۔  دینی پابندیاں  تعلیم وتربیت  قومی حمیت جیسی باتیں مذاق ہوتی ہیں۔۔۔ دولت اور شہرت کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار۔۔۔ اور ان کی اکثریت آخر میں روتی لوگوں کے رویوں کی شکایت کرتی  اور زمانے کی بے حسی کا شکوہ کرتی نظرآتی ہے۔۔۔ بڑے بڑے مشہور اداکارواورگلوکاروں کو ڈپریشن میں مرتے دیکھا گیا۔۔۔ نہ دولت کام آئی نہ شہرت۔۔۔۔ یہ ووٹوں کی تعداد تو بڑھا سکتے ہیں اور عطیات تو دے سکتے ہیں لیکن ملک میں کسی نظام کو قائم کرنے اور لوگوں کی صحیح تربیت کرنے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔۔۔ یہ بھی صحیح ہے کہ ان کو رائے دینے کاحق ہے لیکن ذرا دل پہ ہاتھہ رکھہ کر بتائیں کہ پاکستانی شو بز کی طرف سے کیا رائے آسکتی ہے سوائے کہ انھیں کچھہ بھی کرنے آزادی دےدی جائے۔۔۔ فخرعالم جیسے اکا دکا ہی ہوں گے۔۔۔
ویسے جو بھی شخص تیس چالیس سال کسی فیلڈ میں کام کرے اور پھر کہے کہ ملک کے حالات اور قوم کی حالت پر رونا آتا ہے تو پھر اس نے ملک وقوم کی خدمت نہیں کی بلکہ ملازمت کرکے اپنے بچوں کے لئے دولت جمع کی۔۔۔ ان حالات میں اسکا بھی اتنا ہی حصہ ہےجتنا دوسروں کا۔۔۔
ملیر کینٹ جانا ہوا تو پتہ چلا کہ فیز ٹو میں معین اختر صاحب رہتے ہیں۔۔۔ دو چار کروڑ کے بنگلے میں۔۔۔ بچے انکے باہر ہیں۔۔۔ اکیلے پن سے بچنے کے لئے رات کو دوستوں کے ساتھہ ہنسنے بولنے کی محفلیں سجا لیتے ہیں۔۔۔ ذاتیات کے قائل لوگ کہیں گے کہ ان کی مرضی۔۔۔ پرسنل چوائس اینڈ پرسنل لائیکس اینڈ ڈسلائیکس۔۔۔ اچھا تو پھر وہ وڈیو کیا ہے جس میں معین اختر صاحب شکوہ کررہے ہیں کہ ہم کس قسم کی قو م ہیں۔۔۔
کروڑوں کی جائیداد جمع کرنا۔۔۔ عیش و عشرت۔۔۔ بدحال قوم پر رونا۔۔۔ پتہ نہیں سیاستدانوں نے شوبز کے لوگوں سے سیکھا یا شوبز کے لوگوںنے سیاستدانوں سے۔۔۔۔

جب انسان الله سبحانھ وتعالی کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتا تو وہ نعمتیں واپس لے لی جاتی ہیں یا عذاب بنادی جاتی ہیں۔۔۔ ۔۔۔ زرخیز زمین, پانی, موسم, ,جانور, پرندے, دریا سمندر,اولاد, دولت۔۔۔ ہم سب نے بھی پاکستان کی قدر نہیں کی ۔۔۔ اور خودہی اسے سیاستدانوں اور مولویوں کے ہاتھوں لوٹنے کے لئے چھوڑدیا۔۔۔  اور ہمارےلئے ہر چیز عذاب بن گئی ہے۔۔۔

پہلے زلزلہ آیا اور اسکے دو ڈھائی سال بعد ایم کیو ایم نے عوام کو طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے لئے بھڑکایا۔۔۔ اگر اس لڑکی پرکوڑے مارے جانے کی وڈیو صحیح بھی تھی تو خود کراچی میں اس سے بہت زیادہ کچھہ  لڑکیوں کے ساتھہ ہو رہا ہے۔۔۔ اسکے خلاف تو کوئی آواز نہیں  اٹھتی۔۔۔ اب سیلاب آیا اور ایم کیو ایم نے وڈیروں اور جاگیرداروں کے خلاف عوام کو بھڑ کانا شروع کردیا۔۔۔ آخر انکو اتنا خون خرابہ کرنے میں مزہ کیا آتا ہے۔۔۔

  ذرا سا غور کریں تو اب توکسی سیاستدان کے پاس کچھہ ہے ہی نہیں۔۔۔ کوئی وژن, کوئی امید, کوئی منصوبہ بندی۔۔۔ صرف نفرتیں, خون خرابہ, مایوسی, بھیک مشن, ایک بڑے ملک کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹنے کے طریقے۔۔۔ ملے گا کسی کو بھی کچھہ نہیں۔۔۔ 

 خوش بخت شجاعت صاحبہ کے اسکول سمیت کراچی کے تمام دینی, غیر دینی اور مشنری اسکولز میں کونسا سلیبس پڑھایا جاتا ہے۔۔۔ جن ملکوں کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے بچے بڑے ہو کر انھی ملکوں کا ویزہ لیتےہیں۔۔۔ اپنے اپنے شہروں تک کے بارے میں معلومات نہیں۔۔۔ یہ سیاستدان پورے ملک کو بچانے کا دعوی کرتے ہیں۔۔۔ کیوں کہ خود غلامانہ ذہنیت کے مالک ہیں اسی لئے عوام کو وہی تعلیم دیتے ہیں۔۔۔ اور اب آئندہ تو اسکولوں کا مستقبل کیمپ میں تبدیل ہونا ہے۔۔۔ پچھلے دنوں عشرت العباد اور یوسف رضا گیلانی نے جو اسکولوں اور تعلیم کے بارے میں خبریں پڑھ کر نسائی تھیں وہ ایک جیسی تھیں۔۔۔ یہ جو غلامانہ سوچ پیدا کردی گئی ہے کہ اسکولوں کے بغیر تعلیم دی ہی نہیں جاسکتی۔۔۔ مہینوں میں جاہل ہوتی ہوئی قوم دنوں میں جاہل ہوجائے گی۔۔۔

کراچی والوں کا ذہن ابھی تک پاکستان کو قبول نہیں کرسکا۔۔۔ یا توانڈیا کی یاد داشتیں اور پہچان ہے یا پھر کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرنے کی باتیں۔۔۔ بیچ میں پاکستان غائب۔۔۔ جسکی غلامی کریں وہ پناہ تو دیتا ہی ہے نہ۔۔۔ چاہے وہ وڈیرے اور جاگیردار ہوں جو ڈاکوؤں کو پناہ دیتے ہیں۔۔۔ چاہے سیاستدان جو کرپٹڈ پولیس کو پناہ دیتے ہیں یامغربی ممالک جو پاکستانی لیڈرز کو پناہ دیتے ہیں۔۔۔۔

دیہاتوں کے لوگ بے چارے اس لئے وڈیروں اور جاگیر داروں کے خلاف نہیں جاتے کہ تمام تر مظالم کے باوجود وہی انکی پناہ ہیں۔۔۔ پڑھے لکھوں کے شہروں میں ان کا مستقبل کیا ہے سوائے کسی مافیا کے ہتھے چڑھ کے بھیک مانگنا۔۔۔ اپنی عورتوں کی  عزت کوپڑھے لکھوں کے ہاتھوں لٹوانا۔۔۔ یا دینی لوگوں کی جمع کی ہوئی بھیک پر پلنا۔۔۔ ان کو معلوم ہے کہ یہ پڑھے لکھے لوگ انھیں جاگیر داروں اور وڈیروں کے خلاف بھڑکا تو سکتے ہیں مگر عزت کی زندگی کا راستہ نہیں دکھا سکتے۔۔۔ اورصحیح بھی ہے۔۔۔ جو خود غلامانہ ذہنیت کے ہوں وہ دوسروں کے قدم اکھاڑ تو سکتے ہیں انھیں واپس بسا نہیں سکتے۔۔۔
کراچی کا تعلیمی نظام ہے کیا۔۔۔ آئےدن اسکول بند۔۔۔ مہنگی کتابیں۔۔۔ ہزاروں فیس۔۔۔ غیر تربیت یافتہ ٹیچرز۔۔۔ ٹیوشنز۔۔۔ کوچنگ سینٹرز۔۔۔ نقل سے پاس ہونا۔۔۔ تعلیمی اداروں میں ٹیچرز اور طلبہ کی بے راہ روی۔۔۔ اور اس پر کراچی کے سیاستدانوں کا یہ دعوی کہ وہ پورے ملک کی پڑھی لکھی آواز ہیں۔۔۔
اور یہ تو ثابت ہو ہی چکا ہے کہ ہم کتنے تہذیب یافتہ ہیں۔۔۔ مئیر گالیاں دیتا ہے۔۔۔ گلوکار گالیوں پہ گانے بناتے ہیں۔۔۔ اور تو اور اداکار گالیوں سے بھرمار ڈرامے بناتے ہیں۔۔۔ جویریہ جلیل اور سعود کی پرڈکشنز دیکھہ لیں۔۔۔ اور دعوی پنجابیوں, پٹھانوں کے مقابلے پہ تہذیب یافتہ ہونے کا۔۔۔ کیا تہذیب ہے۔۔۔ ارے پہلے کراچی کی  کوئی تہذیب تو بنالیں۔۔۔ جس شناخت کو تریسٹھہ سال پہلے الله نے دھتکاردیا تھا اسے دوبارہ زندگی کا حصہ بنانا کوئی تہذیب نہیں ہے۔۔۔۔

Change in the system – August 31, 2010

یا الله کیا سارے شیطان اس وقت پاکستان کے سیاستدان بنا دئے گئے ہیں۔۔۔ ابھی تین سال بھی تو پورے نہیں ہوئے۔۔۔ الیکشن کے چند دنوں میں جی جان نچھاور کرنے والے, ملکر عوام کی خدمت کا عہد کرنے والے اور فوج کی واپسی کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند کردینے والے۔۔۔ ہمیشہ سے فوج پر الزام لگانے والے سیاستدان اس دفعہ میڈیا پرپیش کی جانے والی سچائیاں برداشت نہ کر سکے ۔۔۔ پڑھے لکھوں کی طرف سے حساب کتاب مانگا گیا۔۔۔ عوام کی طرف سے جوتا پڑا۔۔۔ سیلاب فنڈ میں بے اعتمادی دکھائی گئی۔۔۔ صرف ڈھائی برس میں اتنی ذلت ملی کہ خود ہی فوج کوایس او ایس کی کال دے دی۔۔۔  کیا فوج ان سیاستدانوں کو بچانے کے لئے آئے گی۔۔۔ پہلےکی طرح ان کی بلیک منی لے کر آزاد چھوڑدے گی تاکہ یہ دوسرے ملکوں جاکردوبارہ دس سال بعد والی نسل کا بیڑہ غرق کرنے کی تیاری کریں۔۔۔

  ۔۔۔

جنرل ااشفاق کیانی صاحب۔۔۔ اس دھرتی نے ہمیں ماں بن کر کھلایا پلایا ہے تو پاک فوج نے باپ بن کرہماری حفاظت کی ہے ہر مصیبت میں سہارا دیا ہے۔۔۔ اگر یہ بے وقوف عوام ان شیطانوں کی ہاں میں ہاں ملاکر فوج کو بلائے تو  جب تک ناک رگڑ کر یہ نہ کہہ لیں کہ ہم ڈنڈے کے قابل ہیں ان پر بھروسہ نہیں کیجئے گا۔۔۔ اس مرتبہ آپ عوام سے حلف لیجئے گا کہ کم از کم اگلے تیس سال تک ملک میں جمہوریت کانام نہیں لیا جائے گا۔۔۔ تیس سال کےلئے وہ فوج کے کہنے پر چلیں گے۔۔۔ تاکہ جو منصوبہ ہو وہ پورا بھی ہو جائے۔۔۔ جیسے کہ ڈیمز, بجلی وغیرہ۔۔۔ اوریہ بھی حلف لیں کہ کسی منصوبے کے لئے عوام کی منظوری ضروری نہیں۔۔۔ جو بہتر سمجھا جائے گا کیا جائے گا۔۔۔

تمام تعلیمی اداروں اور شاہراہوں پر سے عوام اپنے ہاتھوں سے بلا تفریق تمام سیاستدانوں کی تصویریں او جھنڈے ہٹائیں گے۔۔۔ صرف اور صرف پاکستان کا قومی پرچم اور علامہ اقبال اور قائداعظم کی تصویریں لگیں گی۔۔۔ روزانہ اسکولوں میں پاکستان کا قومی ترانہ پڑھا جائے گا۔۔۔ میٹرک کے بعد خاص طورپہ کراچی کے لڑکوں کے لئے فوجی تربیت لازمی ہو گی۔۔۔ لڑکیاں بھی کم نہیں۔۔۔ ان کے لئے بھی اچھی مصروفیات لازمی ہوں گی۔۔۔ انڈین چینلز پر پابندی ہوگی۔۔۔ تمام سیاسی کارکن یا تو جیل میں رہیں گے یا سڑکوں پرجھاڑو دیں گے۔۔۔ نصاب تعلیم مجھہ سے پو چھہ کربنائیےگا۔۔۔

باقی کاموں کے لئے دوسرے پڑھے لکھوں سے بھی مشورہ کر لیجئے گا۔۔۔ لیکن ماڈریٹس سے نہیں۔۔۔ بھٹکے ہوئے لوگ ہیں آپکو کہیں کا کہیں پہنچادیں گے۔۔۔۔۔
یا الله سبحانھ و تعالی میری اکیسویں شب کی پہلی دعا ہے کہ کیانی صاحب کے دل میں اتر جائے میری بات۔۔۔ اور وہ ان پر عمل بھی کرلیں۔۔۔ آمین۔۔۔

 

غدار کسے کہتے ہیں۔۔۔ غداری کی تعریف کیا ہے۔۔۔
وفادار کسے کہتے ہیں۔۔۔ وفاداری کی تعریف کیا ہے۔۔۔
ڈرامہ داستان دیکھہ کر یہ احساس ہوا کہ وہ کردار جنہوں نے مسلمان ہو کرہندؤں اور انگریزوں کا ساتھہ دیا اور قائداعظم کو ناکام کرنے کی کوشش کی وہ آج بھی موجود ہیں۔۔۔ اور آج بھی انڈیا کے وفادار ہیں۔۔۔
کراچی میں کھلے عام انڈیا کا کپڑا لوشنز کریمز دوائیں کڑھائی کے موتی ستارے دھاگے بیچے جارہے ہیں۔۔۔ انڈیا کا کاروبار پاکستانی کرنسی سے چمک رہا ہے۔۔۔ اربوں روپے انڈین فلموں اور گانوں کو پروموٹ کرکے انڈیا بھیجے جاتے ہیں جس کو کشمیر اور دوسرے  علاقوں میں قتل عام کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔ اور پاکستانی اس ظلم میں انڈین فوج کے ساتھہ برابر کے شریک ہیں۔۔۔ صرف اپنی مستیوں اور ٹائم پاس کرنے کے لئے جس بے غیرتی کے ساتھہ انڈین فلموں اورگانوں کا دفاع کیا جاتا ہےحتی کہ رمضان تک کا احترام بھول جاتے ہیں ۔۔۔ شاید اسی کا بدلہ ہے کہ ہم پہ ہر بڑی آفت رمضان میں آتی ہے۔۔۔
اسکول کالج کے لڑکوں لڑکیوں کوگھر کا یا ملک کا کام کرتے ہوئے موت آتی ہے لیکن انڈین چینلز کے لئے ٹائم ہی ٹائم ہے اور کچھہ کہنے پر جواب ملتا ہے۔۔۔ اس سے کیا ہوتا ہے یہ تو فن ہے انٹرٹینمنٹ ہے۔۔۔
ہاں تو ہم بھی تو فن اور انٹرٹینمنٹ ہی بن کر رہ گئے ہیں دنیا کے لئے۔۔۔ یا تو ہم پہ ترس کھایا جارہا ہے یا لعن طعن کی جارہی ہے یا مذاق اڑایا جارہاہے۔۔۔

مزے کی بات۔۔۔ نہیں بے حسی کی بات یہ ہے کہ میئر عوام کو دنیا کے سامنے الو کاپٹھا کہتا ہے اور عوام پھر بھی کہتی ہے بھئی اوروں سے تو بہتر ہے۔۔۔اسی کو وزیراعظم بننا چاہئے۔۔۔ ہمیں گالی دی تو کیا ہوا چار کام توکر گیا۔۔۔ گالیاں تو ہم بھی دیتے ہیں ایکدوسرے کو۔۔۔ شہزاد رائے نے سالی گا دیا۔۔۔ علی ظفر نے الو کا پٹھا گا دیا ۔۔۔ بھئی کام تو کر رہے ہیں نہ۔۔۔ تہذیب تمیز یہ سب پرانے زمانے کی باتیں ہیں۔۔۔ کیا معیار ہیں عوام کے۔۔۔ تو پھر صرف پیپلز پارٹی ہی میں کیوں برائی نظر آتی ہے۔۔۔
بھئی سیدھی سی بات ہے جن جاگیرداروں اور وڈیروں اور سرمایہ داروں کی شوگراورآٹےکی ملز ہیں وہ اس سے عوام کا خون چوس رہے ہیں۔۔۔ اور جو جاگیردار اور وڈیرے اور سرمایہ دار نہیں ہیں انکی شاید فنڈنگ ہوتی ہےانڈیا سے ۔۔۔ ورنہ اتنے شدومد کے ساتھہ کون اپنے شہرکی عوام کے اخلاق و کردار کا بیڑہ غرق کرتا ہے۔۔۔ مجبوری ہے۔۔۔ کوئی بھی پارٹی چلانا آسان تھوڑی ہوتا ہے۔۔۔ ایک فون کال پہ ہی لاکھوں کا خرچہ آجاتا ہوگا۔۔۔
اچھا اگر میں قرآنی قانون یعنی آنکھہ کا بدلہ آنکھہ اور کان کابدلہ کان پر عمل کرتے ہوئے مئیر صاحب سے بدلہ لوں اورجواب میں انھیں الو کا پٹھا کہہ دوں تو۔۔۔ بھئی میں عوام ہوں حق ہے میرا اپنی بے عزتی کا بدلہ لینا۔۔۔۔۔۔ سب میرے ہی خلاف ہو جائیں گے۔۔۔ آپ کو نظر نہیں آتا وہ معزز شخص ہے بھئی۔۔۔ آپ کیا ہیں نہ انڈین فلمیں دیکھتی ہیں نہ انکو کوئی اور فائدہ پہنچاتی ہیں نہ وڈیروں کے ساتھہ تصویریں بنواتی ہیں نہ لوگوں کو طالبان سے ڈراتی ہیں۔۔ ہر وقت پاکستان پاکستان قائداعظم قائداعظم۔۔۔ لہذا آپ تہذیب کے دائرے میں رہئے۔۔۔
ارے بھئی میں کیا کروں۔۔۔ میرے دل میں الله نے کوئی گھٹیا چیز کی محبت ڈالی ہی نہیں۔۔۔ جبھی تو اپنے دل کا خیال رکتی ہوں۔۔۔ بڑا قیمتی ہے میرا دل۔۔۔

 

اور سیاستدانوں کو اب سیاست چھوڑ کر خبریں پڑھنے کا کام شروع کردیناچاہیے کیونکہ اسی کام میں یہ ایکسپرٹ ہیں۔۔۔ کسی کو بھی دیکھہ لیں یہی جملے ملیں گے۔۔۔۔۔۔ دو بارود سے بھری گاڑیاں شہر میں داخل ہو گئیں ہیں۔۔۔ طالبان نے فلاں علاقے میں اپنی سرگرمیاں شروع کردی ہیں۔۔۔ چودہ اگست کے موقع پر دہشت گردی متوقع ہے۔۔۔ اتنے سواسکول تباہ ہو چکےہیں اور جو باقی ہیں انکی تباہی کے لئے دہشت گردوں کو اشارہ کردیاگیا ہے۔۔۔ آنےوالے دنوں میں کچھہ بھی نہیں اگ سکے گالہذا ورلڈ بینک سے قرضہ لازمی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس سیاسی قائد کا احتساب کرو وہ دوسروں کی ٹیپ چلانے لگتا ہے۔۔۔ انکے خلاف جنگ کا مشورہ دینے لگتا ہے۔۔۔ اوئےہم کسی انسان کےبچے کو اپنا لیڈرنہیں بنا سکتےکیا۔۔۔
عمران خان جتنی دولت تو جاوید میانداد کے پاس بھی ہو گی۔۔۔ تو یہاں کوئی علم کا شہر نہیں بس سکتا یا کوئی اور پراجیکٹ۔۔۔ اور جو ایک اٹھے مصطفے کمال صاحب۔۔۔ ایم کیو ایم کا شو پیس جس کے بل پہ وہ جو نہ کروالیں وہ کم ہے۔۔۔ انھوں نے اپنی تعریف کر کرکےکان پکا دیےکہ انکا چہرہ مبارک دیکھہ کر کوفت ہوتی ہے۔۔۔ بھئی چوبیس میں سے تیئیس گھنٹے کام کیا تو کس کے باپ پر احسان کیا اپنا فرض ادا کیا۔۔۔  کبھی پھوٹے منہ کوئی جماعت قائداعظم کے دن رات مر مٹنے کا بھی ذکر کر دیا کرے۔۔۔ اپنے قائد کا رونا روتے رہیں گے۔۔۔  الله کرے روتے ہی رہو۔۔۔ کبھی خوشیاں نصیب نہ ہوں۔۔۔
اچھا مجھہ پر اعتراض ہوتا ہے کہ میں بد زبانی کرتی ہوں۔۔۔ رمضان میں بد دعائیں دے رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اور وہ جو پوری قوم کودھوک دے رہے ہیں۔۔۔ رمضان میں خونی منصوبہ بندی کے لیے عوام کو بھڑکارہے ہیں۔۔۔
اور ویسے بھی دعائیں انسانوں کے لئے کی جاتی ہیں۔۔۔ شیا طین کو تو الله  نے دھتکار دیا ہے۔۔۔۔۔
یا الله پاکستان پر اپنا رحم فرمائیں۔۔۔ جو پاکستان کی شناخت کا عزم لے کر اٹھے اسے کامیاب کردیں  اور جو بندے ماترم کے رکھوالے ہیں  اگر ان میں ہدایت پا جانے کی صلاحیت نہیں توان پر نہ صرف اپنی لعنت فرما ئیں بلکہ انہیں ہمیشہ ناکام و نامراد اوررسوا کردیں۔۔۔ آمین۔۔۔

 نظام ٹھیک کرنے کے لئے فوج کی نہیں ایماندار اور محنتی عوام کی ضرورت ہے۔۔۔ با شعور لوگوں کی تعداد میں اضافے کی ضرورت ہے۔۔۔ ایسی عوام جو زبان رنگ نسل فرقے کا لحاظ کئے بغیر ایکدوسرے کے ساتھہ کھڑی ہو۔۔۔ آپس میں ایکدوسرے سے ہمدردی کرے۔۔۔ اور سیاسی شیطانوں کے بہکاوے میں نہ آئے۔۔۔ بلکہ انکے لئے جوتا ہاتھہ میں پکڑ لے۔۔۔

اگر چین کے عوام ایک ایک اینٹ لگا کر دیوار چین بنا سکتے ہیں۔۔۔ تو پاکستانی کیا ایک ایک اینٹ رکھہ کر ڈیمز نہیں بنا سکتے۔۔۔ ملک میں موجود اور ملک سے باہر دنیا بھر میں موجود پاکستانی کمیونیٹیز ڈیمز کے لئے مہم چلا سکتیں ہیں۔۔۔ جاگیرداری نظام کے خاتمے کا مطالبہ کرسکتیں ہیں ۔۔۔ اوورسیز پاکستانی کروڑوں روپے کازرمبادلہ بھیجتے ہیں۔۔۔ انکا حق بنتا ہے کہ وہ ملک کے مفاد میں جومنصوبہ ہو حکومت کو اسکے لئے دباؤ ڈالیں۔۔۔ اس سیلاب نے کسی کے مذہب زبان عقیدے فرقے علاقےپارٹی کا لحاظ نہیں کیا۔۔۔ اس آفت کا مقابلہ بھی اسی طرح کیا جا سکتا ہے کہ ان تمام چیزوں کو پیچھے رکھہ کر صرف پاکستان کی بہتری کی بات کی جائے۔۔۔ سیلاب سے متاثرین کو یہ بھروسہ دیا جائے کہ اب وہ وڈیروں اور جاگیرداروں کے رحم و کرم پہ نہیں ہیں بلکہ لاکھوں پاکستانی انکی مدد کر رہےہیں اوران کے ساتھہ ہیں۔۔۔ تعلیم یافتہ باشعور لوگ ان کو نئی سوچ  اور بہتر زندگی کی طرف گائیڈ کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ انھیں وڈیروں اور مولویوں کے جبر میں واپس نہیں جانا ہے۔۔۔ اور نہ ہی سیاسی پارٹیز کے بہکاوے میں آنا ہے۔۔۔ صرف قومی پرچم کے تلے ایک قوم ہوکر کام کرنا ہے۔۔۔

یا الله۔۔۔ پلیزپاکستان کی حفاظت فرمائیں۔۔۔ اس سر زمین کو دشمنوں کے شر سے محفظ رکھیے ۔۔۔ آمین

کافی سالوں سے ایک بہت اچھی عادت پڑ گئی ہے اور وہ ہے سلام کرنا۔۔۔ کوئی دکاندار ہو رکشہ ڈرائیور ہو ٹھیلے والا ہو درزی ہو پڑوسی ہو یا کوئی اور۔۔۔  پہلےاگلے پر سلامتی بھیجی پھر بات کی۔۔۔ یہی ہماری تہذیب ہے اور بہترین اخلاق بھی۔۔۔۔۔۔ پٹھان اور پنجابی رکشہ والوں سے ایک آسانی تھی کہ سلام کا جواب ضرور دیتے تھے۔۔۔ تسلی ہوتی تھی کہ سلامتی کا جواب سلامتی سے ہی ملا۔۔۔ کچھہ دن سے وہ تو نظر نہیں آرہے۔۔۔ کراچی والوں سےپالا پڑ رہا ہے۔۔۔ توقع نہیں ہوتی پھر بھی سلام کرتی ہوں۔۔۔ پرسوں تو ایک سے کہہ بھی دیا کہ بھائی میں نے سلام کیا ہے آپکو سلامتی کی دعا دی ہے۔۔۔ آگے سے جواب ملا جی میں نے نوٹس کیاہے اصل میں یہاں کوئی خاتون سلام نہیں کرتی۔۔۔ میں نے کہا مرد ہی کونسا کرتے ہیں۔۔۔ کتنوں کو بتایا کہ سلام کے جواب میں یہ نہیں کہا جاتا کہ کیاچاہئے , کہاں جانا ہے۔۔۔ لیکن ماشاءالله ڈھٹائی کی حد ہے۔۔۔ حتی کہ پڑھے لکھے لوگ بھی سلام سن کر یہی ردعمل کرتے ہیں۔۔۔

ایک اور حیرت کی بات کہ بہت سے ہٹے کٹوں کو دیکھا کہ روزہ نہیں رکھہ رہے۔۔۔ پان کی وجہ سے۔۔۔ کام کی زیادتی کی وجہ سے۔۔۔ گرمی کی وجہ سے۔۔۔ اور آگے تو رمضان گرمیوں میں آئیں گے۔۔۔ مصطفے کمال کا کوئی گلا پکڑے کہ اے پڑھےآدمی یہ کون سے بے پھل وپھول درخت لگائے ہیں جن سے انسان چرند پرند کسی کو کوئی فائدہ نہیں۔۔۔ اس ہریالی سے کتنی آلودگی کم ہو گئی۔۔۔ نیم کے یا دوسرے درخت کتنے ہی آہستہ بڑھیں دو تین سال میں کسی قابل تو ہوہی جاتے ہیں۔۔۔ اور جو گرین بیلٹس پر خزانہ لٹایا گیا ان میں سے بہت سی واپس سمینٹڈ ہو گئیں یا پہلے کی طرح نالوں کی صورت میں کھلی پڑی ہیں۔۔۔ باہر والوں نے بھی ڈگریاں پکڑادیں لیکن یہ بتانا بھول گئے کہ بھلائی کے کاموں سے پہلے عوام کو بھلائی کا شعور دیا جاتا ہے۔۔۔ لندن کے شیخ کی پن ڈراپ سائیلینٹ تقریریں ہوتی ہیں ان میں وہ طا لبان کی برائی کے ساتھہ ساتھہ کارکنوں کو عوام میں شعور بیدار کرنے کا کام بھی سونپ دیا کریں تو قوم کو شاید فائدہ ہوجائے۔۔۔ لیکن عقلمند ہیں جانتے ہیں ایسا کیاتو ووٹ کون دیگا۔۔۔۔۔۔
بہت خوشی ہوئی جب امی نے بتایا کہ وہ تین سال کے بعد اس سال روزے رکھہ رہی ہیں حالانکہ پچھلے تین سال کی طرح اس سال بھی انھوں احتیاطا پورے مہینے کا کفارہ اداکردیا ہے۔۔۔ چھوٹے ماما نے بھی ہمیشہ کی طرح دو ہارٹ سرجریز کے باوجود روزے نہیں چھوڑے۔۔۔ جبکہ ان دونوں کی میڈیکل وجوہات ہیں۔۔۔ بابا کے نزدیک تو ویسے ہی روزہ مردانگی کی علامت ہے۔۔۔

لیکن پاکستان میں عجیب مذاق دیکھا کہ مجبوروں کی مجبوریاں ختم ہی نہیں ہوتیں۔۔۔
الله اس قوم کو شعور دے۔۔۔ آمین۔۔۔

At The Time of National Crisis – August 16, 2010

یہ کتاب ہے کسی شک کے بغیر۔۔۔ ہدایت ہے ڈرنے والوں کے لئے۔۔۔

“This is the Book with no doubts in it; guidance for those who fear Allah“….ayah 2, Surah Al-Baqarah/The Cow

اور جو شخص ڈرتا رہے گا الله سے۔۔۔ تو الله پیدا کرے گا اسکے لئے نکلنے کی کوئی راہ۔۔۔۔

“And for those who fear Allah, He (ever) prepares a way out”…. ayah 2, Surah At-Talaq/The Divorce

اور رزق دے گااسے ایسے طریقے سے جدھر اسکا گمان بھی نہ جاتا ہو۔۔۔ اور جو بھروسہ کرے الله پر سو وہ اسکے لئے کافی ہے۔۔۔ بلا شبہ الله پورا کرکے رہتا ہے اپنا ارادہ۔۔۔ بے شک مقرر کر رکھی ہے الله نے ہرچیز کے لئے ایک تقدیر۔۔۔

“And He provides for him from (sources) he never could imagine. And if any one puts his trust in Allah, sufficient is ((Allah)) for him. For Allah will surely accomplish his purpose: verily, for all things has Allah appointed a due proportion”…. ayah 3, Surah At-Talaq/The Divorce

اور جو شخص ڈرے الله سے۔۔۔ پیدا کردیتا ہے وہ اسکے معاملات میں آسانی۔۔۔

“and for those who fear Allah, He will make their path easy”…. ayah 4, Surah At-Talaq/The Divorce

اور جو شخص ڈرے گا الله سے۔۔۔ تو وہ دور کردے گا اس سے اسکی برائیوں کو اور عطا فرمائے گا اس کو بڑا اجر۔۔۔

“and if any one fears Allah, He will remove his ills, from him, and will enlarge his reward”…. ayah 5,  Surah At-Talaq/The Divorce

 

 

ویسے ایک بات میں نے دیکھی اپنے بارے میں۔۔۔ کہ رعب ہے میرا۔۔۔ بھئی الله کا فضل ہے میراکوئی کمال نہیں ہے۔۔۔ مطلب کہ اگر مذاق میں بھی کہہ دوں کہ میں ملنے آرہی ہوں تو ڈرکر بھاگ جاتے ہیں۔۔۔ پہلے تو بہانے بہونے کرتے تھےاب تو ملک چھوڑ کرچلے جاتے ہیں۔۔۔ لاکھہ سمجھاؤ کہ بھئی میری باتوں کو سنجید گی سے نہ لیا کریں۔۔۔ میں تےصرف مخول کیتاسی ۔۔۔۔ یہ تو حال ہے کراچی والوں کے اخلاق کا۔۔۔

اچھامیں محاورات کو جملوں مں استعمال کرکےوکھاؤں۔۔۔

خون کھول اٹھنا۔۔۔ ایم کیوایم اےاین پی اور پیپلز پارٹی کے جھنڈے دیکھہ کر میرا خون کھول اٹھتا ہے۔۔۔

باغ وبہار ہونا۔۔۔ آج دو اسٹالز پر پاکستان کے جھنڈے دیکھہ

کردل باغ وبہار ہو گیا۔۔۔

کان کاٹنا۔۔۔ شیطان نے اپنے ساتھیوںسے کہا بھئی پاکستان کے سیاستدان تو میرے بھی کان کاٹتے ہیں۔۔۔

بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنا۔۔۔ قدرتی آفات کے موقع پر زرداری کا غیر ملکی دورہ۔۔۔ گویابلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔۔۔

آنکھیں دکھانا۔۔۔ عوام کےاپنے حقوق کے لئے احتجاج کرنے پرسارے سیاستدانوں نے یکجا ہوکرعوام کو آنکھیں دکھائیں۔۔۔

خون پسینہ ایک کرنا۔۔۔ سیاستدانوں کی عدم پالیسیوں نے عوام کا خون پسینہ ایک کردیا۔۔۔

آجکل کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر نہیں بلکہ گاؤں بنا ہواہے۔۔۔ دھول اڑاتی پگڈنڈی نما سڑکیں۔۔۔ بے پھول وپھل درخت۔۔۔ ورنہ پرندوں کی ہی آوازوں کا ہی شور ہوتا۔۔۔ جب سب بند تولوگ کھائیں کہاں سے۔۔۔ یہودیوں امریکیوں سے کیا شکایت کریں یہاں تو مسلمان مسلمان کے منہ سے رزق چھیننے اور زمین کے ٹکڑوں پر قتل وغارت کو سیاست کہتے ہیں۔۔۔ گھروں اور شہروں کو ویران اور برباد کرنے کو اسلام کہتے ہیں۔۔۔ پاکستان کو اجاڑکر رکھہ دیا۔۔

Khooni Balain – August 4, 2010

پناہ مانگتی ہوں میں الله کی۔۔۔ پاکستان کے سیاستدانوں سے۔۔۔

کاش امی کی باتیں مان لی ہوتیں۔۔۔ منع کرتی تھیں کہ جنوں بھوتوں کی کہانیاں نہ پڑھو۔۔۔  سچ مچ میں آ جاتے ہیں۔۔۔ لیکن میں نہیں مانتی تھی۔۔۔ اب پتہ چلا کہ امی سچ کہتی تھیں۔۔۔ ساری خونی بلائیں آج سیاسی پارٹیاں بنا کر بیٹھیں ہیں۔۔۔ ہر تھوڑے دنوں کے بعد عوام کا خون پی کر انھیں چین آجاتا ہے۔۔۔ خوف وہراس پھیلانا۔۔۔ ڈرانا۔۔۔ شہر کو ویران کرنا۔۔۔ ان کی فطرت ہے۔۔۔۔۔۔ بابا نے حالانکہ طریقے بتاے ہیں بلاؤں سے نمٹنے کے۔۔۔  وہ تو مل چکے ہیں  نا سر کٹے شیطان سے۔۔۔ لیکن پھر بھی ۔۔۔ اتنوں کا مقابلہ میں اکیلی کیسے کروں۔۔۔ الله معافی ہیں بھی ہاتھی گینڈے جیسے۔۔۔

آدھی کو چھوڑ پوری کو جائے۔۔۔ آدھی پائے نہ پوری پائے۔۔۔ بچپن میں ہم سمجھتے تھے کہ یہ محاورہ حلوے والی پوری کے لئے کہا گیا ہے۔۔۔ کم ازکم اب ہماری سیاست کے لئے کہا جا سکتا ہے۔۔۔
ایم کیو ایم بے چاروں نے پورے پاکستان کے جھنڈے کو کراچی کی قیمت پر بیچا۔۔۔ کراچی بھی پورا نہ مل سکا۔۔۔
اے این پی اپنا صوبہ  آگ اورخون میں ڈوبا ہواچھوڑ کر کراچی پہ رال ٹپکانے آگئے۔۔۔  بے چارے اگر ساری دنیا کے پختونوں کراچی والوں کے خلاف اکھٹا کرنے کے بجائے یہی دھمکی امریکہ کو دے دیتے تو خیبر پختون خواہ میں آج امن اور خوشحالی ہوتی۔۔۔ پتہ نہیں شاہی سید صاحب اتنے بہادرکب ہوں گے کہ امریکہ اور نیٹو افواج سےسو سالہ بدلہ لیں سکیں اپنے علاقوں کی تباہی کا۔۔۔
پیپلز پارٹی کی تاریخ تو خیر سب ہی جانتے ہیں۔۔۔اتنی لعن طعن کے بعد بے حس ہو گئے ہیں۔۔۔
نواز لیگ شاید انتظار میں ہے کہ کب یہ تینوں جماعتیں ایکدوسرے پرغرانے اور کاٹ کھانے میں نقصان اٹھائیں اور انھیں موقع ملے۔۔۔
ہائے یہ سیاسی گدھ ۔۔۔ پاکستان کے جھنڈے۔۔۔ پاکستان کے ترانے۔۔۔ پاکستان کے نظریہ۔۔۔ پاکستان کی عزت کو بیچ کر خود کو عظیم قائد کہلاتے ہیں۔۔۔ مرجائیں تو شہید۔۔۔ ذرا کارکنوں سے ہٹ کرعام لوگوں کی باتیں سنیں۔۔۔ بد دعائیں۔۔۔ لعنت ملامت۔۔۔ ذلت۔۔۔
آج رضا حیدر صاحب کے سوگ کا دوسرا دن ہے۔۔۔ لوگ دکھہ میں آج بھی مرغن کھانے پکا رہے ہیں۔۔۔ انڈین چینلز کھلے ہؤے ہیں۔۔۔  اور مجھے کسی سے ملنے جانا تھا۔۔۔ بہت اہم۔۔۔ تو سب بند ہے۔۔۔
 

کل بازار جانا ہوا۔ پہلے تو رکشہ والے نے ہولا دیا کہ سب بند پڑا ہے۔ ایم کیو ایم کے بندے مارے گئے ہیں۔ میں نے کہا پھر بھی دیکھہ لیں ورنہ میں واپس آجاؤں گی۔ بازار میں پٹھا نوں کی کافی دکانیں واقعی بند تھیں۔ جو ہماراپٹھا ن دکاندارہے وہ کھلا تھا۔ میں نے پو چھا کیا بات ہے پٹھانوں کی دکانیں کیوں بند ہیں۔ کہنے لگا کل پٹھانوں نے ایم کیو ایم کے آدمی ماردئیے۔ میں نے پو چھاکتنے اور کیوں۔۔۔۔ کہنے لگاپچیس بندے مارے ہیں۔ نائن زیرو میں گھس گئے تھے۔ ۔۔۔۔ تو میں نے کہا آپ لوگ کیسےپٹھان ہو اپنا صوبہ توافغا نیوں اور دہشت گردوں کے حوالے کردیا اب کراچی کی زمنیوں پر قبضہ۔ یہاں بھی آگ لگادو گے پھرکون سا شہر برباد کرنے جاؤگے۔ اتنے بہا در ہو تو پہلے اپنا صوبہ واپس لو دہشت گردوں سے۔۔۔ قبضہ ہی کرنا ہے تو اتنی زمین پرکرو جس میں دفن ہونا ہے۔۔۔۔ کہنے لگا بین یکین مانو ام ایسا نائیں اے۔ام تو ادر روزی پہ کھڑا ہے۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا پھر آپ انھیں سمجھاتے نہیں ہو۔۔۔۔۔۔ کہنے لگا ام سمجھاتا اے توآگے سے ام کو جواب ملتااے کہ تم بے غیرت پٹھان اے۔ ابی ام خاموش او جاتااے کیا کرے۔۔۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر اور ہم اور پٹھان سیا ستدانوں کو لعنت ملامت کرتے رہے۔ پھر شورمچا کچھہ لوگوں نے شٹر گروانے شروع کردئیے۔۔۔ کسی نے کہاایم کیو ایم کی ریلی نکلے گی۔۔۔ کسی نے کہا پیچھے نائن زیرو پہ ایم کیو ایم کا جلسہ ہے۔۔۔
واپسی پر درزی کے پاس رکی تو اس نے ایک اور کہانی سنائی۔ کہنے لگا کل آگئےتھے جھنڈےسلوانے۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا کون تو مسکراکر بولا وہی۔۔۔۔۔ میں نےکہا ایم کیو ایم۔۔۔ تو ہاں میں سر ہلانے لگا۔۔۔۔۔ میں نےکہا آپ نے منع کردینا تھا صاف کہہ دیتےکہ غداروں ہم پاکستان کے علاوہ کوئی جھنڈا نہیں بنائیں گے۔ ۔۔۔۔۔ کہنے لگا کہ ہم نےمنع کیا کہ کام کاپریشر زیادہ ہے تو ہمارے دو کاریگراور اگلی گلی میں درزی ہے اسکے بھی دو کاریگراٹھا کر لے گئےپانچ سو جھنڈے  بنوانے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اٹھا کر لے گئے۔۔۔ تعلیم یافتہ جماعت کےکارکن۔۔۔۔ توان میں اور باقی سیاسی غنڈوںمیں فرق کیا رہ گیا۔۔۔۔

چودہ اگست کے لئے پاکستان کے جھنڈے بنواتے ہوئے موت آتی ہے ایم کیو ایم کو۔۔۔۔۔ اور دونوں درزی پنجابی ہیں۔۔۔ کیا کہیں گے وہ پنجاب جاکے کہ ایم کیو ایم کے غنڈے ہمارے کاریگر اٹھاکر لے جاتے ہیں۔ یہ ہے ووٹ لینے کا طریقہ۔ واپسی پر جو رکشہ والا تھا وہ کراچی کاتھا۔  میں نے اس سے حالات پوچھے۔۔۔  کہنے لگا بہن میں اورنگی ٹاؤن میں رہتا ہوں اور پھر جو اس نےایم کیو ایم کو برا بھلا کہنا شروع کیا ہے۔۔۔۔۔

یہ کس قسم کی سیا ستیں کی جا رہی ہیں۔ پٹھان عوام پٹھان سیاستدانوں کو براکہہ رہے ہیں۔ کراچی کےعوام ایم کیو ایم سے تنگ ہیں۔ پنجاب کے عوام کو پنجابی سیاستدانوں کوگالیاں دے رہے ہیں۔ بلوچی عوام کو بلوچی سیاستدان کھا گئے۔ اپنے ہی لوگوں کا خون پی کرسیاست کرنا۔ اپنی عوام کو بربادکرکے دنیا کو ان کی بے بسی دکھانااور ان کی فلاح وبہبود کے نام پہ قرضے اڑانا۔۔۔ صرف پاکستانی سیاستدانوں کاطرز سیاست ہے۔۔۔۔۔۔ کیا فرق ہے ان سیاستدانوں میں اور ان لوگوںمیں جو بارہ بارہ بچے اس لئے پیدا کرتے ہیں کہ ان کی بد حالی کے نام پر بھیک مانگ سکیں۔ بلکہ یہ سیاستدان تو ان بھکاریوں سے بھی بدتر ہیں۔ کم از کم وہ اپنے بچے تو خود پیداکر لیتے ہیں۔ یہ تو دوسروں کی نسلیں برباد کرکے بھیک مانگتے ہیں۔ بے غیرت اتنے کہ دن رات انکو لعنت ملامت کرتے رہو پھر بھی پیچھا نہیں چھوڑتے۔ فیض زندہ ہوتے تو ضرور ایک نظم آج کے سیاستدانوں کے نام لکھتے۔۔۔۔۔ ہماری سیا ست کے یہ آوارہ کتے۔۔۔ انھیں کوئی احساس ذلت دلادے۔۔۔۔۔۔ آمین

شادی۔ ایک ایسا موقع جب سارے پاکستانی کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔  جہاں دینی لوگوں کی ساری منافقتیں ظاہرہو جاتی ہیں۔ وہیں یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ وہ جو خود کوغیردینی یعنی دینی لوگوں سے بہتر مسلمان سمجھتے ہیں انکے دل کتنے بٹے ہوئے ہیں۔ کراچی والوں کوہی لے لیں۔ ایک کراچی میں پورے انڈیا کی قومیں مل جائیں گی لیکن پاکستانی نہیںملے گا۔ امروہہ لکھنؤ دہلی رامپور کانپور دکن حیدرآباد  بہاربریلی بھوپال وغیرہ وغیرہ۔ پتہ نہیں انگریزوں اور ہندؤں کی غلامی میں کیامزہ تھا کہ آج تک وہیں کو روتے رہتے ہیں۔ ہجرت کرنی تھی تو دلوں کی گند تو وہیں پھینک آتے۔ بلکہ اپنی اگلی نسلوں میں بھی منتقل کردیں۔ حتی کہ عالم ہوں یا حافظ بن جائیں لیکن دلوں کی گندگی صاف نہیں کرتے۔ اور جن کے دل صاف نہ ہوں وہ بھلا شہر اور ماحول کی صفائی پرکیا توجہ دیں گے۔
حتی کہ تعلیم یافتہ ہونے کا دعوی کرنے والی جماعت بھی کراچی والوں کو پاکستانی نہ بنا سکی۔ بلکہ پاکستان کے قومی پرچم کے مقابلے پہ دوسری جماعتوں کی طرح اپنا الگ ہی جھنڈا لے آئے۔ اور جہاں دل بٹے ہوئے ہوں سڑکوں پرمختلف جھنڈے لہرانے لگیں تو زمین کا بٹوارہ مشکل نہیں رہ جاتا۔
آج اپنے ملک کاماحول دیکھیں تو لگے گا اسلام سے قبل کے قبائلی دور میں رہ رہے ہیں۔ سارے قبیلےاپنے جھنڈے تلے یا تو ایکدوسرے پرحملےکرتے ہیں اورپھر جوابی کاروائیاں۔ حتی کہ گھر بھی قبیلے بنے ہوئے ہیں۔ جسکے گھر اولاد پیدا ہو جائے تو سمجھتے ہیں قبیلے کی آن بان پر قربان ہونے والا پیداہو گیا۔

سیدھی سی بات ہے۔ جس کے دل میں رسول نہیں وہ اسلام کی خدمت کیا کرے گا۔ اور جس کی زبان پرپاکستان کا ترانہ اورہاتھوں میں قومی پرچم نہ ہو وہ پاکستان سے غداری کے علاوہ کچھہ نہیں کر سکتا۔

 


Leave a comment