New Political Science جدیدسیاسیات

Isn’t it time to change the way we think and discuss things in educational institutions, if we really do so?

Don’t we need to design a new syllabus for Political Science?  What should be the contents of the new syllabus?

لفظ مہاجراسم مفاعل ہے اور نکلا ہے ہ ج ر یا ہجرسے,  یعنی ترک کردینا, چھوڑ دینا۔۔۔ اردو میں جدائی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔۔۔  عام زبان میں مہاجر وہ شخص ہوا جو اپنا وطن, اپنا علاقہ کسی وجہ سے چھوڑنے پر مجبور ہوجائےاور کسی دوسرے ملک یا علاقے مں عارضی طور پر پناہ لے۔۔۔ اس وقت تک کے لئے جب تک اسکے اپنے ملک میں حالات اچھے ہو جائیں اور وہ واپس جا سکے۔۔۔ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمان کچھہ عرصے بعد مکہ واپس آگئے تھے۔۔۔

وہ شخص جو اس نیت سے کسی دوسری جگہ جائے کہ وو وہاں مستقل رہے گا, گھربار بنائےگا, اس ملک کے باشندوں کے ساتھہ مل کر وہاں کے نظام کا حصہ بن جائے گا, مہا جرنہیں کہلایا جاسکتا۔۔۔ مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے والے مسلمان مدینے کی خلافت قائم ہوتے ہی بھائی بھائی اور برابر کے شہری بنا دئے گئے تھے۔۔۔ اور مہاجرین اور انصار کا فرق مٹادیا گیا تھا۔۔۔

  شہری ہونا مہاجر ہونے کے الٹ ہے۔۔۔ شہری ہونے کا مطلب ہے اپنے ملک, اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھہ مخلص اور وفادار ہونا۔۔۔ انکے ساتھہ مل کرمعاشرے کی تعمیر میں حصہ لینا۔۔۔ حتی کہ سب کے مستقبل کی فکرکرنا۔۔۔

جو شخص اپنے ہوش و حواس کے ساتھہ اپنی قومیت بدلنے کا فیصلہ کرے اس ملک کا شہری ہی کہلاے گا, مہاجر نہیں۔۔۔ البتہ اس قوم کے لوگ اس شخص کی وفاداری کو پرکھتے ضرور ہیں۔۔۔ مثال کے طورپر امریکہ میں وہاں کی شہریت حاصل کرنے کے لئے پانچ سال وہاں رہنا ضروری ہے, شاید اس لئے کہ پانچ سال میں وہ وہاں کے نظام, رسم وروایات کو اچھی طرح سمجھہ لے, اس دوران انھیں ایلین شپ یا ایک اجنبی کی طرح رہنے کے لئے کارڈ دے دیا جاتا ہے جس کی بنیاد پر اسے بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

اسکے بعد وہ حلف یعنی زبانی عہدو پیماں کرواتے ہیں۔۔۔ میں یہ عہد کرتا/کرتی ہوں۔۔۔ حلف دیتا/ دیتی ہوں کہ۔۔۔ میں ترک تعلق کا اعلان کرتا/کرتی ہوں۔۔۔ ہرقسم کی وفاداری اور تعلق سے۔۔۔ کسی بھی غیرملکی بادشاہت, ریاست,اور نظام سے جس کا/کی میں آج تک وفادار یا شہری تھا/تھی۔۔۔ میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے قوانین اور آئین کی پاسداری کروں گا/گی اوروفاداررہوں گا/گی۔۔۔ ہراندرونی اوربیرونی دشمن کے خلاف۔۔۔ اوریہ کہ میں پوری سچائ کے ساتھہ یہ عہد نبھاؤں گا/گی۔۔۔ اوریہ کہ ملکی قوانین کے تحت جب ضرورت پڑی,  اسلحہ رکھہ سکتا/سکتی ہوں, مسلح افواج کا غیر مسلح کاموں میں ساتھہ دوں گا/گی, شہری ہدایات کے مطابق قومی سطح کے کام کروں گا/گی۔۔۔۔ اورمیں یہ ذمہ داری آزادی کے ساتھہ, بغیر کسی ذہنی دباؤ یا غفلت اوربدل جانے کی نیت کے قبول کرتا/کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتنے سخت حلف کے بعد کسی شخص کوامریکہ کے نظام کو بنانے یعنی ووٹ ڈالنے کا حق مل جاتا ہے۔۔۔ اس حلف کے بغیر وہ شخص روٹی,  کپڑا, مکان, گھومنا پھرنا, تعلیم حاصل کرنا, شادی کرنا, مطلب یہ کہ عام زندگی کے سارے کام سر انجام دے سکتا ہے۔۔۔ لیکن اس نظام کے تحت جو وہاں کے وفادار شہریوں نے حق رائے دہی کے بعد مل کر بنایا ہے۔۔۔
پاکستان میں ووٹ ڈالنے یعنی موجودہ نظام کو چلانے یا بدلنے کے لئےاپنا حق استعمال کرنے کی شرط اٹھارہ سال کا ہونے کی ہے۔۔۔ جسکا نشان قومی شناختی کارڈ ہے۔۔۔ غیر ملکی یہاں کی شہریت کیسے حاصل کرسکتے ہیں, اور انکے لئے ووٹ ڈالنے کی کیا شرائط ہیں,یہ چیزیں کالج سلیبس کا حصہ ہونی چاہئیں۔۔۔ ساتھہ ہی ہمارا حلف نامہ۔۔۔

بات ہو رہی تھی مہاجر کی۔۔۔ پتہ یہ چلا کہ مہاجر ہونا ایک عارضی حالت ہوتی ہے, چاہے کچھہ دنوں یامہینوں کے لئے ہو یاکئی سالوں کے لئے۔۔۔ کوئی بھی ملک انسانی بنیادوں پر مہاجروں کو روٹی, کپڑا, مکان اور سیر سپاٹے کی اجازت تو دے سکتا ہے, ان کوکمانے کی اجازت دے کران سے ٹیکس وصول کرسکتا ہے۔۔۔ لیکن ان سے وفاداری کاحف لئے بغیرانکو نظام ادل بدل کرنے کی اجازت  نہیں دیتا۔۔۔
 
ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ جیسی ایک عظیم ہجرت بر صغیر کے مسلمانوں نے بھی کی۔۔۔ 1947میں لاکھوں لوگ بھارت سے پاکستان آئے۔۔۔ بہت سے لوگ ہجرت کے دوران سفر مارے گئے۔۔۔ جو پاکستان پہنچ گئے وہ واپس جانے کے لئے نہیں آئے تھے اس لئے وہ یہاں رہنے والوں کی طرح پاکستانی شہری ہوئے۔۔۔
لیکن الله جانے وہ کون سی وجوہات تھیں کہ بہت سے لوگ خود کو سالوں مہاجر کہلواتے رہے۔۔۔ کیا ان کا واپس بھارت جانے کا ارادہ تھا یا پاکستان کو مسافر خانہ سمجھہ کر رہنا تھا کہ جب موقع لگے کہیں اور چلے جائیں گے۔۔۔
اگر ایسا تھا تو ہجرت کے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق انھیں پاکستانی نظام یا لوگوں کی شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں۔۔۔ ہاں یہاں رہنے کاحق ضرور تھا, لیکن اگر وہ یہاں اپنے قدم نہ جما سکے تو کسی کا کیا قصور۔۔۔
اس سے بڑا ظلم انسان اپنےاوپر کیا کرسکتا ہے کہ قانونی طور پر کسی ملک کا شہری ہوتے ہوئے بھی نفسیاتی طورپر خود کو مہاجر سمجھے۔۔۔  بھلا ایسا شخص دوسروں کے ساتھہ مل کر کیاکسی معاشرے کی تعمیر میں حصہ لے سکتا ہے۔۔۔
اسی طرح اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو کسی قوم کےبہت سے شہریوں کو مہاجر ہونے کا احساس دلا دلا کر ان کو بے سکون رکھے۔۔۔ انکے قدم جمانے کے بجائے اکھاڑنے کا سبب بنے۔۔۔ انکوماضی کی قومیت کا احساس دلا کرباقی لوگوں سے الگ ہونے کا احساس دلائے۔۔۔ اور اس طرح تفرقے اور تعصب پھیلانے کاسبب بنے۔۔۔
کیا دنیا کا کوئی بھی ملک ایسے شخص کو لیڈرشپ کی اجازت دیگا۔۔۔

ایک مسلمان کے لئے پوری دنیا الله کی سلطنت ہوتی ہے اور وہ خود خدا کا نمائندہ ہوتا ہے۔۔۔ جس ملک میں رہے قوانین کی پاسداری اس پر لازم ہوتی ہے اور اپنے ایمان کی حفاظت فرض۔۔۔ایک جگہ کواچھا کہنے یا اپنی شہریت بدلنے کے عمل کو  جسٹفائے کرنے کے لئے اپنے وطن کو بدنام کرنا کم از کم کسی مسلمان کا طرز عمل تو نہیں ہوسکتا۔۔۔

ماضی میں سینکڑوں بلکہ لاکھوں کڑوڑوں مسلمانوں نے اپنے وطن سے دوسرے ملکوں کا سفر کیا۔۔۔  مگرجن کا مقصد سائنسی علوم حاصل کرنا یا حدیثوں کا علم حاصل کرنا یا  تحقیق, تجارت, سیاحت, مظلوموں کی مدد, انسانیت کی خدمت وغیرہ تھا۔۔۔ انھیں اپنے مقاصد کے لئے بھوک پیاسا بھی رہنا پڑا, قیدبھی اٹھانی پڑی, خوف اور دشمنیوں کابھی سامنا کرنا پڑا۔۔۔ ان میں سے بہت سوں کے نام تاریخ کی کتابوں میں مختلف کامیابیوں کے حوالے سے درج ہیں۔۔۔ ان کا یہ سفر ہجرت میں بھی شمار نہیں ہوتا۔۔۔  جنھوں نے محض ہجرت کی پیٹ بھرنے, تن ڈھانپنے اور سر پر چھت بنانے کے لئے, انکے نام تو انکی اپنی نسلوں کو بھی یاد نہیں۔۔۔
عام حالات میں ہجرت کے لئے شریعت نے کچھہ شرائط مقرر کیں ہیں۔۔۔ مثلا تجارت, جہاد, شادی, تبلیغ۔۔۔ لیکن یہ ایک عارضی رخصت ہے نہ کہ مستقل اجازت۔۔۔

خیر اس پرمزیداور حتمی روشنی تو علماء دین ہی ڈال سکتے ہیں۔۔۔ میں نے تو صرف اپناحق اظہاررائے استعمال کیا ہے۔۔۔

About Rubik
I'm Be-Positive. Life is like tea; hot, cold or spicy. I enjoy every sip of it. I love listening to the rhythm of my heart, that's the best

Leave a comment