B.A. Notes in Urdu

 

اردو نوٹس بیچلرز کے لئے۔۔۔ بیچلرز انگریزی کا لفظ ہے جسکا مطلب ہے کنوارا۔۔۔ اسکو چودھویں سال کی ڈگری کا نام کیوں دیاگیا اور پاکستان میں اسکا مقصد سمجھہ نہیں آتا۔۔۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ کچھ لیولز ہونے چاہئیں انکا کوئی بھی نام رکھا جائے, کوئی بھی کسی بھی عمر میں جو لیول پاس کرے اسکو وہ ڈگری دے دیں۔۔۔

کیونکہ تعلیمی عمل کو چودہ سال تک کھینچنے کے لئے خواہ مخواہ کا سلیبس بنایا جاتاہے,  کون کتابیں لکھ رہا ہے, کیا لکھہ رہا ہے, کون سے اسباق ہیں اور انکا موضوع کیا ہے… کچھہ چیزیں پہلی کلاس سےایم اے تک پڑھائی جاتی ہیں مگر پھر بھی طالبعلم نہ انھیں سمجھتے ہیں نہ ان پر بحث کر سکتے ہیں… مثلا تاریخ پاکستان, نظریہ پاکستان, اردو ادب, انگلش لٹریچر۔۔۔

ہر نئی نسل نئی حکومت کی طرح برے نظام کی وجہ اپنے سے پہلوں کی غفلت کو قرار دیتی ہے۔۔۔  لیکن نئی نسل یہ بھول جاتی ہے کہ پچھلی نسل کی غفلت کی وجہ نئی نسل ہی ہوتی ہے۔۔۔ ہر نسل کے لوگ جب اپنی اولادوں کے لئے خود غرض ہو جائیں, دوسروں کاحق ماریں, جھوٹے دستاویزات بنوائیں, رشوت لیں, رشوت دیں۔۔۔ تواگلی نسل کو جینے کے لئے صرف ایک  جرائم پیشہ معاشرہ ہی ملتا ہے جسکے حصہ دار خود انکے گھر اور خاندان کے لوگ ہوتے ہیں۔۔۔

ویسے بیچلرز کی ڈگری کا مقصد کیا ہوتا ہے۔۔۔ پہلی جماعت سے بیچلرز تک چودہ سال اور مونٹیسوری سے سولہ سال بنتے ہیں۔۔۔ اور بیچلرز کی ڈگری لینے والے کی عمر انیس بیس اکیس سال کی تو  ضرورہو گی۔۔۔ تو ایک انسان کے پچے یا بچی کو سولہ یاچودہ سال کے مسلسل تعلیمی عمل کے بعد کس قابل ہو جانا چاہئے۔۔۔ کس حد سمجھدار اور باشعور ہو جانا چاہئے۔۔۔  کس قسم کی باتیں اسے سمجھہ آجانی چاہئیں۔۔۔ کس حد تک فیصلے کرنے اور انھیں نبھانے کی اہلیت ہونی چاہئیے۔۔۔ مذہبی, سیاسی, قانونی اورسماجی مسائل کی کس حد تک سمجھہ ہونی چاہئے اور انکو حل کرنے میں کیا کردار ہونا چاہئے۔۔۔۔ کس مضمون پر کتنا عبورہونا چاہئے۔۔۔ کیا مضامین کی کومبینیشن آج کل کے حساب سے ہے۔۔۔۔ کیا بیچلرز کی ڈگری طلبہ وطالبات کو موجودہ دور اور حالات کے حساب سے ملازمتوں یا کاروبار کے لئے تیار کرتی ہے یا اسکا مقصد یہ ہوتا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔ اگر ملازمت یا کاروبار کے لئے تیاری نہیں تو پھر چودہ یا سولہ سال سات آٹھہ گھنٹے گھر سے باہر گذارنے کا کیا مقصد ہے۔۔۔

ہمارے بچے ساتویں نہیں تو آٹھویں جماعت سے تو ضرورعشق ورومانس کی باتیں سمجھنے لگتے ہیں۔۔۔ اور بہت اچھی طرح والدین, ٹیچرز, محلے والوں کو چکر بھی دے دیتے ہیں۔۔۔اسکے لئے انھیں کسی ٹریننگ یا استاد کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔۔ اور اس طرح پانچ چھہ سال میں اس فیلڈ کی اونچ نیچ کو خوب سمجھنے لگتے ہیں۔۔۔ لیکن باقی معاملات کے معاملے میں نہ صرف وہ بچے بنے رہتے ہیں بلکہ ایک حد تک خود کو احمق, بے وقوف اور ناکارہ بھی ظاہر کرتے ہیں۔۔۔ اکثر والدین, رشتہ دار یا دوست وغیرہ بھی انھیں اسی قسم کی خصوصیات کا احساس دلادلا کر معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔

 چودہ یاسولہ سال زندگی کا ایک بہت بڑا اوراہم حصہ ہوتے ہیں۔۔۔ اتنےعرصے تو جانوروں کو ٹریننگ دی جائے تو وہ بھی قابل توجہ کام سر انجام دینے لگتے ہیں۔۔۔ بلکہ وہ کام اس حد تک ان جانوروں کی فطرت کا حصہ بن جاتے ہیں کہ انھیں جنگل میں چھوڑ دیا جائے تو ان کی کمیونٹی انھیں قبول نہیں کرتی۔۔۔ اور نہ ہی وہ خود جنگل کے ماحول میں ایڈجسٹ ہو پاتے ہیں۔۔۔ ساتھہ ساتھہ ایسے جانور اپنے مالک کےلئے کمائی کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔۔۔ اپنے مالک کے ایک اشارے یا منہ سے نکلنے والے ایک لفظ سے اندازہ لگا لیتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔۔۔

اب ذرا بیچلرز ڈگری کے خواہشمند یا وہ جو یہ ڈگری حاصل  کر چکے ہیں اپنا موازنہ ان جانوروں سے کریں, اس میں سرکس کے جانور بھی شامل ہیں۔۔۔ کہ کیا سیکھا اور کیاکرنے کے قابل ہیں۔۔۔

اردو زبان کے اصل مجرم کون ہیں۔۔۔ وہ جو خود تو بڑے اردو ادب کے ستون کہلائے مگر اپنی اولادوں کوانگریزوں کا پرستار چھوڑ گئے۔۔۔ وہ جنھوں نےقوم کو یہ سوچ دی کہ اردو زبان میں عشق ومحبت کے قصے سنائے جاسکتے ہیں, انتقام و نفرت و سازشوں سے  بھر پور اسکرپٹس لکھے جا سکتے ہیں, فتووں سے بھری کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔۔۔ لیکن ملک وقوم کی کی ترقی کا کام نہیں کیا جاسکتا۔۔۔ یا وہ جو اپنی اولادوں کو باہر کی یونیورسیٹیز میں پڑھاتے ہیں مگرقوم کو اردو کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔۔۔ یا خود ساری عوام جو نہ بولنے کو تیار, نہ سننے کو, نہ کچہ کرنے کو۔۔۔

ہمیں کیوں اپنے اس جرم کا احساس نہیں ہوتا کہ ہرایرے غیرے کو اسکول کھولنے کی اجازت دے کر, ہر قسم کا سلیبس باہر سے درآمد کر کے, اپنے میں سے ہی اٹھے ہوئے مجرمانہ ذہنیت کے استادوں استانیوں کو تعلیمی اداروں کوبرباد کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کرکے ہم نے اپنے ہی بچوں کا مستقبل تباہ کیا۔۔۔

بیچلرز کے لیول کے لئے کورس کی کتابیں ضروری ہیں یا کالجز اور یونیورسٹیز میں ایک تفصیلی سلیبس دے کر طلبہ سے تحقیقی کام کروانا۔۔۔ جبکہ ایک طرف حال یہ ہے کہ تیسری چوتھی پانچویں جماعت کے بچوں کو اردو میں نظم, شعر, مضمون, کہانیاں لکھنے کو دی جاتی ہیں۔۔۔ ضروردیں لیکن اسکے لئے انھیں پڑھنے کا وقت, تیاری کا وقت دیں نہ کہ بچے ٹیوشن یا بڑوں سے چیزیں لکھوا کر نمبر حاصل کریں۔۔۔

سیاق و سباق کے ساتھہ تشریح کریں, کسی ایک شاعر, ادیب, افسانہ نگار کے حالات زندگی لکھیں یا فن پر تبصرہ کریں, کسی نظم یا سبق پر تبصرہ کریں یا خلاصہ لکھیں۔۔ سروے کرکے دیکھہ لیں کہ یہ کتنا بڑا بوجھہ ہے طلبہ پر۔۔۔ اور جب بوجھہ ہلکا کرنے کے لئے والدین, اساتذہ ہی راستے فراہم کردیں توپھرجہالت کا شکوہ حکومت سے کرنا بےکارہے۔۔۔۔

ایک بات یہ بھی ہے کہ نثر میں جو اقتباسات اور شاعری کے جو حصے منتخب کئے گئے ہیں وہ کس بناء پر۔۔۔  کتاب کے آخر میں مشکل الفاظ کے معنی بھی دے دیا کریں کیونکہ سو دو سو سال پرانی اردو تو اب بولی نہیں جاتی۔۔۔ بلکہ اب تو لب ولہجہ بھی پاکستانی نہیں رہا۔۔۔ کم از کم کراچی میں تو ہندوستانی فلموں کا لہجہ اور الفاظ  نئی نسل کی شخصیت کا حصہ ہیں۔۔۔ بلکہ کافی ساری ٹیچرز اور اسکول اونرز بھی اسی تلفظ میں بات کرتی ہیں۔۔۔

کیا پاکستان میں پہلی جماعت یا مونٹیسوری سے بیچلرز تک مضامین, خاص طور پر اردو اور اسلامیات میں کوئی سیکوینس یادرجہ بندی ہے۔۔۔ کہ کس عمر یا جماعت کے بچوں میں کم از کم اتنی پڑھنے یا لکھنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔۔۔

What is Bachelor’s Degree? http://www.collegeonline.org/library/choosing-degree/bachelors-degree

As the examination days for Bachelors are approaching closer,  Google search for notes in Urdu is increasing every day.  Most searches are for Psychology, Political Science and Education notes in Urdu language.

There are many websites and facebook pages available for Urdu readers but they mostly consist of poetry, excerpts from Urdu Literature, religious substance by religious groups and news in general.  Nothing I could find that can help the students with discussions and explanation in Urdu.

I still don’t understand the reason of category “Arts” and for including Political Science, International Relations and Education in it.  To make things easier why don’t we introduce the credit system (like in many other countries).  Students can achieve the degree by availing certain credit points for different subjects.  Government will have to provide the syllabus and students can do their research to prepare notes and give examination.

The students of Arts or B.A. are mostly private students.  Even regular students don’t attend classes since they complain that lecturers and teachers ask them to come to the coaching in the evening and get the marks.  If this is really happening, no matter what , students must complain this to someone, inform personally or write to the authorities.

 

 قومی شناختی کارڈ کے لئے, ڈرائیونگ کے لئے, ووٹ ڈالنے کے لئے بلکہ شاید نکاح کے لئے بھی۔۔۔ اٹھارہ سال کا ہونا کیوں ضروری ہے۔۔۔ شاید اسلئے کہ اٹھارہ سال دنیا میں گذارنے کے بعدایک لڑکا یا لڑکی اس قابل ہو جاتے ہیں کہ اپنی شناخت کرواسکیں, ذاتی حیثیت میں بھی اور قومی لحاظ سے بھی۔۔۔ شاید اسلئے کہ ان پربھروسہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ڈرائیونگ سیٹ پربیٹھنے کے بعد اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو خطرے میں نہیں ڈالیں گے۔۔۔ شاید اسلئے کہ اٹھارویں سال تک پہنچتے پہنچتے ایک لڑکا یا لڑکی کم از کم دو الیکشن سیزنز تو دیکھہ ہی لیتے ہیں, اسکا طریقہ, اسکا نتیجہ, اس پر بحث مباحثہ انکے ذہن میں رہ جاتا ہے, اور وہ ذہنی طور پراس قابل ہوتے ہیں کہ ملک وقوم کے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔۔۔ اور جو ملک اور قوم کے لئے صحیح یا غلط شخص کا انتخاب کرنے کی اہلیت رکھتا ہو وہ اپنے ذاتی زندگی کافیصلہ کرنے کابھی حق رکھتا ہے۔۔۔ اسکا مطلب ہے کہ قومی شناختی کارڈ ذمہ داری اورسمجھداری کی علامت ہے۔۔۔

کیا یہ معلومات یعنی قومی شناختی کارڈ کی اہمیت, ووٹ کی اہمیت, ٹریفک کے قوانین, شادی اور طلاق سے متعلق قرآنی احکامات,  ہمارےتعلیمی کورس کا حصہ نہیں ہونی چاہئیں۔۔۔ انٹرمیڈیٹ کے طلبہ وطالبات یعنی سولہ سترہ سال کے نوجوانوں کوان اہم موضوعات کے بارے میں بتانا حکومت کی ذمہ داری نہیں۔۔۔ 

لیکن یہ باتیں ہیں اٹھارویں سال میں آنے سے پہلے کی۔۔۔ اٹھارہ کے بعد کیا کیا جائے, کیا سیکھا جائے, کیا سمجھا جائے۔۔۔

Why eighteenth year of life seems suitable for NIC, for driving, for right to vote and even for marriage?  What a person can witness and experience in just eighteen years?  Or is it enough time to become responsible for dealing personal affairs as well as communal and national matters?

What youth is supposed to do at eighteen, shouldn’t they be educated about those matters before their legitimate time?

اچھا چلیں یہ پوچھہ لیتے ہیں کہ بی اے کرنے کے بعد کیا کرنا ہے۔۔۔ ملازمت ڈھونڈنی ہے یا ماسٹر کرنا ہے۔۔۔

ہمارے معاشرے میں اس سوال کے متوقع اور پسندیدہ جوابات ہیں … مجھے آگے پڑھنا ہے, بہت قابل بننا ہے, دنیامیں نام پیدا کرنا ہے, باعزت مقام بنانا ہے, اپنےخواب پورے کرنے ہیں, غریبوں کا سہارا بننا ہے, ملک وقوم کی خدمت کرنی ہے۔۔۔

ان جوابات پر میرے اعتراضات یہ ہیں۔۔۔ کہ سب سے پہلے تویہ سارے کام کرنے کے لئےہمت, توانائی, وقت اور جذبہ کی ضرورت ہوتی ہے جو بیچلرز کرنے تک آدھی بھی نہیں رہ جاتے۔۔۔ چودہ پندرہ سولہ سترہ سال کے تعلیمی عمل میں یہ سارے خزانے کام آجاتے ہیں اور یہ سارے کام خواب بن جاتے ہیں۔۔۔

دوسری بات یہ کہ بھئی کتنا پڑھ لینا ہے, کتابوں سے رٹ رٹ کر امتحان دے دے کر  چودہ پندرہ سولہ سترہ سال ایک ہی طور زندگی گذار کر جی نہیں بھر جاتا۔۔۔ کتنا قابل بننا ہے,  ویسے بھی زیادہ پڑھ لکھہ کرانسان قابل نہیں قابیل بن جاتا ہے۔۔۔ اور دنیا میں نام پیداکرنے اور مقام بنانے کی بات ہے تو میں نے خود پی ایچ ڈیز کو لانڈرومیٹ چلاتے اور عام سی پرنسپل کی جاب کرتے دیکھا ہے۔۔۔

غریبوں کا سہارا بننا اور ملک وقوم کی خدمت دو بہت پیچیدہ مسئلے ہیں جنکو بہت زیادہ پڑھے لکھے نہیں سمجھہ سکتےاورنہ بہت زیادہ غیر پڑھےلکھے۔۔۔ کیونکہ دونوں کاموں کا تعلق ایک مضبوط سماجی اور معاشی نظام سے ہے۔۔۔ جبکہ دونوں کومحض نیکی ثواب کا کام سمجھہ کرکسی خاص وقت اور حالات میں کیا جاتا ہے جسکی وجہ سے وہ ایک نظام کی شکل اختیار نہیں کرپاتے۔۔۔

ویسے ایک بات ہےکہ ہم میں سے ہرایک زیادہ سے زیادہ غریبوں کا سہارا بن کرخدا سے نزدیک ہوناچاہتاہے اور اسے انسانیت کی خدمت اور سب سے بڑی عبادت سمجھتاہے۔۔۔ اور آج خدا نے سینکڑوں بلکہ ہزاروں لاکھوں کی خواہش کے مطابق دردمند, بے بس, مجبور, بےسہارا, غریب لوگ کڑوڑوں کی تعداد میں سامنے لاکر کھڑے کردئیے ہیں کہ کروانکی مدد اور ہو جاؤ میرے نزدیک۔۔۔  یہ کڑوڑوں بے سہارا وہ لوگ ہیں جو کل تک ہمارے رزق کا سامان کررہے تھے۔۔۔ اگر ہم نے انکے مسائل میں دلچسپی لے کر انھیں بہتری کی طرف لے آئے ہوتےتوآج ہم ایک آسان زندگی گذار رہے ہوتے۔۔۔

پس ثابت یہ ہوا کہ نیکی کرنے کی دعا مانگنے سے پہلے اسکی منصوبہ بندی بھی کرلینی چاہئیے اور ذہنی اور  جسمانی طور پر خود کونیکی کے مواقع فراہم کرنے والےحالات کے لئے تیار بھی کرلینا چاہئیے۔۔۔

اور دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ انسان کسی قابل نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔ دشمنوں کو للکار کرمٹانے کی باتیں کرنے والے, روٹی کپڑا مکان فراہم کرنے کے دعوے کرنے والے, انسانوں کو آزادی اور انسانی حقوق کا خواب دکھا کر لادینیت یا سیکیولرازم کی طرف لانے والے, اپنے جوش ایمانی سےلوگوں کی تقدیریں بدل دینےوالے, اپنے خطبات سے اور فتووں سے دوسروں کے جنت اور جہنم کا فیصلہ کرنے والے۔۔۔ مچھر جیسے حقیر سمجھے جانے والے کیڑے کے آگے بے بس ہوجاتے ہیں۔۔۔ دوا کام آرہی ہے نہ دعا۔۔۔

علامہ اقبال نے کہا کہ… ہو عالم ایجاد میں جو صاحب ایجاد, ہردورمیں کرتا ہے طواف اسکا زمانہ۔۔۔۔۔۔

اقبال کا مطلب شاید سائنسی ایجادات بھی رہا ہو جنکی وجہ سے مسلمان صاحب ایمان مغربی دنیا کے غلام بن گئے ہیں کیونکہ سائنسی چیزیں ایجاد کرنا ہمارے ہاں کفر سمجھا جاتا ہے لیکن اگر کافر ایجاد کرے تو مصلحتا استعمال کرنے کا فتوی موجود ہے۔۔۔۔۔۔

لیکن یقینا صاحب ایجاد سے اقبال کی مراد صاحب تدبیر ہے یعنی مشکلات سے نکلنے کے لئے وقت اور حالات کے حساب سے حل بتانے والا۔۔۔ کیونکہ مسلمان اپنی حرکتوں کی وجہ سے دشمنوں کو اپنے پیچھے لگا لاتے ہیں اور جو حالات پیدا ہوتے ہیں ان سے نکلنے کے لئے صاحب تدبیر لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے۔۔۔ جو بعد میں قوم کے ہیرو یا باپ کہلاتے ہیں۔۔۔

ویسے جو بی اے کے بعد جابس تلاش کرنا چاہتے ہیں انکے خیال میں انھیں کس قسم کی جابس مل سکتی ہیں۔۔۔ انکی تنخواہ کتنی ہوسکتی ہے۔۔۔ اس تنخواہ میں وہ کب تک گذارہ کرسکتے ہیں۔۔۔

بی اے کی ڈگری تو ویسے بھی کئی سال پہلے اپنی اہمیت کھو چکی ہے۔۔۔ بی اے میں پڑھائے جانے والے مضامین کا پاکستان میں کیا کام۔۔۔ نفسیات, سیاسیات, عمرانیات, معاشیات, گھریلو معاشیات, لائبریری سائنس, تاریخ, اسلامی تاریخ, تاریخ پاکستان, بین الاقوامی تعلقات, عربی, فارسی, تعلیم, سوشل ورک, جغرافیہ۔۔۔۔

تو جس نظام جس تعلیم کا فائدہ نہ ہو اسے بدل کیوں نہیں دیتے۔۔۔ اپنے لئے نہ سہی, اگلی نسلوں کے لئے سہی۔۔۔وہ دعا دینگی کہ کوئی ہمارے لئے کام  آسان کرگیا۔۔۔

میر امن دہلوی  – 1809 – 1733              سرسید احمد خان – 1898 – 1817

مولوی نذیر احمد – 1912 – 1831            مولانا محمد حسین آزاد – 1910 – 1832

سید مہدی علی محسن الملک – 1907 – 1837     خواجہ الطاف حسین حالی – 1914 – 1837

علامہ شبلی نعمانی – 1914 – 1857         مولوی عبدالحق – 1961 – 1870

منشی پریم چند – 1936 – 1880             مرزا فرحت الله بیگ – 1947 – 1884

رشید احمد صدیقی – 1977 – 1892         احمد شاہ پطرس بخاری – 1958 – 1898

غلام عباس – 1982 – 1909        خواجہ میر درد – 1784 – 1720             میر تقی میر – 1810 – 1722

خواجہ حیدر علی آتش – 1846 – 1778   مرزا اسد الله خاں غالب – 1869 – 1797

مومن خان مومن – 1856 – 1800        نواب مرزا خان داغ دہلوی – 1905 – 1831

سید فضل الحسن حسرت موہانی – 1951 – 1875     علی سکندر جگر مراد آبادی – 1960 – 1890

علامہ اقبال – 1938 – 1977     فیض احمد فیض – 1984 – 1911

مرزا محمد رفیع سودا – 1781 – 1703     شیخ محمد ابراہیم ذوق – 1854 – 1789

میر ببر علی انیس – 1874 – 1802     خواجہ الطاف حسین حالی – 1914 – 1837

نظیر اکبر بادی – 1830 – 1735     علامہ شبلی نعمانی – 1914 – 1857

سید اکبر حسین اکبر الہ آبادی – 1921 – 1843      شبیر حسن خاں جوش ملیح آبادی – 1982 – 1896

سیماب اکبر آبادی – 1951 – 1880    احسان دانش – 1983 – 1892

حفیظ جالندھری – 1982 – 1900

یہ اردو ادب کے چند مشہور نام ہیں۔۔۔ کچھہ شاعر اور کچھہ نثر نگار۔۔۔ ان میں سے کچھہ کےنام پہلی جماعت سے سنتے اور پڑھتے چلے آئے ہیں پھر بھی نہ انکی تاریخ پیدائش یاد ہوتی ہے نہ تاریخ وفات, نہ جگہ پیدائش اور نہ وجہ پیدائش۔۔۔ چودہ سالوں کے دوران جب انکا نام آئے نوٹس بنانے کے لئے بھاگ دوڑ مچی ہوتی ہے۔۔۔ ان میں سر فہرست نام ہے سرسید احمد خان, علامہ اقبال اور غالب۔۔۔

ویسے اتنے سارے ناموں میں صاحب تدبیر کون نکلا۔۔۔ میرے حساب سے علامہ اقبال۔۔۔ ایک وژن دے کر ہندوستان کی مسلمان اقلیت کو پاکستان کی مسلمان اکثریت میں بدل دیا۔۔۔ قلم اور سوچ کی طاقت کا صحیح استعمال۔۔۔

باقی سب بھی ٹھیک تھے, انہوں نے اپنے لحاظ ادبی کام بھی کئے, سیاسی بھی, مذہبی بھی اور سماجی بھی۔۔۔ مزاح بھی لکھا اور بچوں کے ئے بھی۔۔۔ غزل, نعت, مرثیہ, رباعی, نظمیں۔۔۔۔۔ اقبال کا کمال یہ ہے کہ انکے کلام میں یہ سب مل جاتا ہے۔۔۔

دوسرا بڑا نام حفیظ جالندھری کا ہے جنھوں نے اقبال کے تصور پاکستان کے مقصد کو سمجھتے ہوئے قومی ترانہ لکھہ ڈالا اور کیا کمال لکھا کہ جتنی مرتبہ پڑھیں مزہ آتا ہے۔۔۔ کم الفاظ کے شعروں کے قافیہ اسطرح ملائے ہیں کہ نہ پڑنا مشکل نہ یاد کرنا اور مقصد بھی سمجھہ آجائے دو قومی نظریے کا۔۔۔

ویسے ان دو بڑے ناموں کو ہم نہ جانے کیوں پیچھے رکھتے ہیں۔۔۔ حسد کرنے یا مقابلے کی بات نہیں۔۔۔ ذرا سب کی تاریخیں ملاحظہ فرمائیے۔۔۔ سب ہی اگے پیچھے ایکدوسرے کے زمانے سے وابستہ تھے۔۔۔ ایک ہی خطے کے رہنے والے تھے۔۔۔ ان میں سب سے پرانے میر درد اور سب سے نئے فیض احمد فیض ہیں۔۔۔ لیکن جس نے کچھہ حاصل کرلیا وہ دو بڑے نام یہی تھے۔۔۔ اقبال اور حفیظ جالندھری۔۔۔

ویسے بی اے  کے باقی مضامین بھی پڑھنے کی نہیں بلکہ ٹی وی پروگرامز دیکھنے اور سننے کی ضرورت ہے۔۔۔ تقریبا سارے مضامین کے موضوعات پر کسی نہ کسی چینل پر بات چیت یا بحث ہورہی ہوتی ہے۔۔۔ اخبارات اور رسالوں سے بھی نوٹس بنائے جاسکتے ہیں۔۔۔

سیاسیات میں دنیا کی مشہور تقریریں بھی شامل کرنی چاہئیں جن میں قائد اعظم کی تقاریر بھی شامل ہوں اوران لوگوں کے حالات زندگی جن کی کوششوں نے انکے ملکوں کی سیاست پرمثبت اثر ڈالا۔۔۔ خواہ مخواہ میں صدیوں پرانےسیاسی نظام جو اب کہیں نہیں ان پر بحث کرنے کا کیا فائدہ۔۔۔ انھیں تو حوالہ کے لئے پڑھیں اور بس۔۔۔ البتہ خلافت مدینہ اور رسالت کے سیاسی پہلوؤں کو ضرور کورس میں شامل ہونا چاہئیے۔۔۔۔۔۔

ایجو کیشن تو مضمون نہیں بلکہ خود ایک کیٹیگوری ہے۔۔۔ اس میں تو سارے ہی مضامین آجاتے ہیں۔۔۔

بلکہ آرٹس گروپ ختم کرکے جتنے مضامین ہیں انھیں دو بنیادی کیٹیگوریز سیاسیات اور تعلیم میں لازمی کردیں۔۔۔ دو سال یعنی سات سو تیس دن کافی ہو سکتے ہیں اگرصحیح طریقے سے پابندی کے ساتھہ پڑھایا جائے۔۔۔

یہ جو کچھہ اسباق اور کچھہ مشقیں ہم تقریبا ہر سال کرتے چلے آرہے ہوتے ہیں وہ طریقہ بھی تبدیل ہونا چاہئیے۔۔۔ اور کچھہ ہونہ ہو ۔۔۔ کچھہ کام تو ملے گا طلباء کو  سوچنے کے لئے۔۔۔ اور کچھہ ہونہ ہو ۔۔۔ کچھہ کام تو ملے گا طلباء کو سوچنے کے لئے۔۔۔

 

اردو زبان کے امتحانات۔۔۔۔۔۔۔ بہت ہی پیچیدہ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ نہیں کے ساتھہ۔۔۔۔۔۔۔

پتہ ہے کیا۔۔۔ اتنا غصہ آتا تھا پرچوں میں الٹے سیدھے سوال پڑھ کر۔۔۔

روشنی ڈالئے, اظہار خیال کیجئے, تبصرہ کیجیے۔۔۔  بھئی یہ بھی تو بتائیں یہ سب کرتے کیسے ہیں۔۔۔ کیا اظہار خیال کا مطلب ہوتا ہے ذاتی رائے, توواقعی سچی رائے لکھنے پر نمبرز مل جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو قسم کے سوال سب سے زہر لگتے تھے۔۔۔ ایک یہ کہ, بتائیے شاعر اس شعر میں کیا کہنا چاہتا ہے۔۔۔ اور وہ بھی وہ شاعر جو انتقال فرما چکے ہیں۔۔۔ بھئی یہ تو شاعر خود ہی بتا سکتاہے, ہمیں کیا پتہ اب کہ وہ کسں سے کیاکہنا چاہ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ اصولا اس قسم کے سوالات کے لئے زندہ شاعروں کی شاعری کا انتخاب کرناچاہیے کہ انسان کبھی ملاقات کرکے پوچھہ ہی لے کہ بھئی آپ اپنے شعروں میں کیا کہنا چاہتے ہیں, تفصیل سے بتائیے, امتحانات میں جوابات لکھنے ہوتے ہیں۔۔۔

ویسےجو شاعرآج زندہ ہیں انکا کلام انکے مرنے کے بعد اردو سلیبس کا حصہ بنے گا۔۔۔ اور ایک بات تو طے ہے کہ امتحانات میں سوالات کا اندازجب تک بھی یہی رہے گا۔۔۔ لہذا آج کے شاعروں کو چاہیے کہ کل کے طلبہ وطالبات کی آسانی کے لئے اپنی شاعری کی وجوہات , اپنے خیالات قلمبند یا فلمبند کروا جائیں۔۔۔

ایک بات سوچنے کی ہے کہ ہمارے معاشرے میں زندگی کی لہر دوڑ جائے گی اگرزندہ شعراء, ادیب اور افسانہ نگاروں کے لکھے کو پڑھایا جائے, بلکہ اردو کے پیپرز انھیں سے چیک کروائے جائیں۔۔۔ ایک تو انکا دل ہی خوش ہو جائے گا, دوسرے انکو کام مل جائے گا, تیسرے ان میں مزید بہتر اور کچھہ نیا لکھنے کا شوق پیدا ہو جائے گا۔۔۔

اچھا, دوسرا سوال جو کہ سوال نہیں بلکہ مطالبہ ہوتا تھا اور مجھے نہایت عجیب لگتا تھا وہ یہ کہ۔۔۔ فلاں فلاں بات یا کسی کے جملے پر بحث کیجئے۔۔۔ اب پہلی بات تو یہ کہ ہمارے گھر میں بحث مباحثے پر پابندی تھی, امی کوسخت برا لگتا تھا زبان چلانا, اسلئے پحث کرنا ہی نہیں آتی تھی۔۔۔ دوسرے یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ کاپی پر بحث کیسے کی جاتی ہے کیونکہ بحث کرنے کے لئے کسی دوسرے کا سامنے ہونا اور بات کرنا ضروری ہوتا ہے۔۔۔ خود ہی خود تو یا پڑھا جا سکتا ہے یا لکھا جاسکتاہے, بحث نہیں کی جاسکتی۔۔۔

یہ تو اب پتہ چلا کہ کسی بات کی بال کی کھال اتار دینا, کہاں سے شروع ہوئی, کیسے شروع ہوئی, اس کے اچھے یابرے اثرات کیاہوئے, انجام کیا ہوا۔۔۔ یہ سب کچھہ لکھنا بحث کرنا کہلاتا ہے۔۔۔

اچھا ٹیچرز اتنا بتاتے نہیں جتنا امتحانات میںلکھنے کو دیتے ہیں۔۔۔ اورآجکل تواورغضب ہے۔۔۔ کچھہ بھی نہیں بتاتے اور سب کچھہ پوچھہ لیتے ہیں۔۔۔

 سب سے بڑا سانحہ تعلیمی دور کا یہ ہوتا ہے کہ ساری چیزیں تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد رفتہ رفتہ سمجھہ میں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔۔۔ اور پڑھے لکھے کا حال اس کرکٹر جیسا ہوجاتا ہے جو خود تو کبھی صحیح نہ کھیل پائے مگر ریٹائرمنٹ کے بعد وہ وہ مشورے دیتاہے, وہ تنقیدیں کرتا ہے  جیسے بابائے کرکٹ ہے۔۔۔

اچھامزے کی بات یہ ہے کہ سارے طالبعلم اپنے زمانےمیں برے نظام تعلیم کا رونا رورہے ہوتے ہیں۔۔۔ مگرجب والدین بنتے ہیں تو کہتے ہیں, ہمارے زمانے میںبھی تو آخرپڑھائی ہوتی تھی, ہمارے اساتذہ ایسے سخت اور قابل ہوتے تھے, ایک آجکل کے ٹیچرز ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ سب کہتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ آج کی یا کے ٹیچرز کل انھیں کے زمانے کے اسٹوڈینٹس تھے۔۔۔ کل انھوں نے جو سیکھا آج سکھا رہے ہیں۔۔۔

یہ کوئی نہیں کرتا کہ بی اے کے ایجوکیشن/تعلیم منتخب کرنے والوں سے پوچھے کہ تمھارے ہوتے ہوئے  تعلیمی نظام میں بہتری کے بجائے براوقت کیسے آیا۔۔۔ سترہ, اٹھارہ, انیس, بیس, اکیس۔۔۔ پانچ سالہ اعلی تعلیم کا کیا نتیجہ نکلا۔۔۔۔

کم عمری میں اگرکسی نے کوئی بہت بڑا تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے تو اب تک صرف دوشخصیات کے نام سامنے آئے ہیں ۔۔۔ محمد بن قاسم الثقفی اورفاتح سلطان محمد یا محمد ثانی۔۔۔

محمد بن قاسم الثقفی کاتعلق شہر طائف سے تھا جہاں توہین رسالت کی گئی اسطرح کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو پتھر مارمار کرشدید زخمی کر دیاگیا, اور جب الله سبحانھ وتعالی نے فرشتے بھیجے یہ پوچھنے کے لئے کہ اگرآپ صلی الله علیہ وسلم چاہیں توشہر کو انتقاما تباہ کردیا جائےتو فرمایا کہ نہیں, یہ نادان لوگ ہیں, شاید ان کی نسلوں میں سے ایمان والے لوگ پیدا ہوں۔۔۔ پتہ نہیں طائف کے باشندوں کو معلوم ہے کہ نہیں کہ وہ کتنی عظیم قوم ہیں, انکا ایک بیس سالہ نوجوان ہندوستان کی سرزمین اور خاص طورپرسندھ کی سرزمین کے لئے رحمت بن کرآیا۔۔۔ کبھی پاکستانیوں نے طائف والوں کا شکریہ اداکیا۔۔۔۔۔۔ صرف سترہ سال کی عمر میں کامیاب فوجی آپریشن کیا اور ہنوستان میں پہلےاسلامی سیاسی نظام کی بنیاد ڈالی۔۔۔ کل بیس سالہ زندگی, نہ قبر کا نام و نشاں, نہ کوئی  پتھریلی یادگار۔۔۔ لیکن آٹھہ سو سال بعد بھی کڑوڑوں مسلمان بغیر کسی مطلب کےعزت اورفخر سے نام لیتے ہیں۔۔۔

فاتح سلطان محمد کاتعلق ترکی سے تھا۔۔۔ اکیس سال کی عمر میں قسطنطنیہ فتح کیا اور بازنطینی حکومت کا خاتمہ کردیا۔۔۔ ترکی کے لوگ پانچ سو سال بعد بھی انھیں اپنا ہیرو مانتے ہیں۔۔۔  اور باقی اسلامی دنیا بھی بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔۔۔ 

تصور کیا جاسکتا ہے کہ اتنی چھوٹی عمروں میں اتنی بڑی کامیابی کے لئے انکی سولہ سترہ سال کی عمر تک کی زندگی کیسی گذری ہوگی۔۔۔ یہ ہمارے مسلمان نوجوان تھے جن پر ان کے بڑوں نے بھروسہ کرکے اتنی بڑی ذمہ داریاں ڈالیں۔۔۔

اب ذرا آج کے بڑے اور نوجوان, دونوں کا رویہ دیکھیں زندگی, قوم اور ملک کے بارے میں۔۔۔ کیا آج کے بڑوں کو حجاج بن یوسف اور سلطان مراد کی طرح اپنی تربیت اور تعلیم پر اتنا بھروسہ ہے کہ وہ اپنے کسی چھوٹے کو اتنا بڑاکام کرنے دیں کہ ملک وقوم کی تاریخ بدل جائے۔۔۔ کیا ہمارے ہاں نوجوانوں کو ملک وقوم سے متعلق کوئی نور بصیرت دیا بھی جاتا ہےکہ نہیں۔۔۔

اوپر والے دونوں سوالوں کا جواب ہے نہیں۔۔۔ کیونکہ ہمارے ہاں اولاد کو ملک وقوم کی امانت نہیں بلکہ بہت عرصہ تک اپنابچہ ہی سمجھا جاتا ہے اوربچہ بھی اسی میں خوش رہتا ہے کہ میں معصوم ہوں لہذا بڑا کام کرنے سوچنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔ نور بصیرت جن ذرائع سے سمجھہ آتا ہے یعنی صبر مطلب کہ جمے رہنا, حکمت یعنی صحیح فیصلہ کرنے کی سمجھہ,  تزکیہ نفس مطلب کہ غیر ضروری باتوں اور کاموں سے اجتناب, تفکر, یقین۔۔۔ اسکے لئے وقت کس کے پاس ہے۔۔۔

البتہ خوشی کی بات یہ ہے کہ ہر دور میں کچھہ نہ کچھہ نوجوان اتنی مایوسیوں اور بند ماحول میں بھی خود ہی اپنے لئے زندگی کاراستہ چن لیتے ہیں اور اسطرح اکثر دوسروں کے لئے بھی زندگی آسان کردیتے ہیں۔۔۔

توہین رسالت کے ذکر پر گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا نام یادآجاتا ہے اور ساتھہ ہی ممتاز قادری, جس نے کچھہ ملاؤں کی جوشیلی تقریریں سن کر اقدام قتل کا فیصلہ کیا۔۔۔ وہ ملازمت تو حکومت کی کررہا تھا مگر اسکی وفاداریاں مولویوں کے ساتھہ تھیں, اس نے اپنی عقل, اپنے جذبات, اپنے اعمال کو اپنے عالموں کے اختیار میں دے رکھا تھا۔۔۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ملا دوسروں کو تو جوش دلاتے ہیں لیکن خود کوئی ایسا کام نہیں کرتے۔۔…۔ اور جو انکی تقریریں سن کر قانون ہاتھہ میں لے اسے جنتی قرار دے کر لوگوں کو اسکے پیچھے لگا دیتے ہیں۔۔۔

ہماری فلم انڈسٹری اوراردو ادب کےکچھہ لکنے والوں نے بہت پہلے سے اس سوچ کو عام کیا ہوا ہے کہ عدالتوں سے انصاف نہ ملنے پر خودانتقام لینے والا اور اس کے لئے قانون کو توڑنے والا عوام کا ہیرو ہوتا ہے۔۔۔

شاید اسی عام تاثر کی وجہ سے ہمارے ہاں کے ہر مردوں عورتوں کو اپنی غلطیاں, اپنے جرائم جسٹفائے کرنے کی عادت ہوگئ ہے۔۔۔ اور شاید اسی لئے ممتاز قادری کا جرم ہمیں نظر نہیں آرہا۔۔۔

توہین رسالت کا قانون ہونا چاہئے اس میں تو کوئی بحث ہی نہیں۔۔۔ لیکن توہین کے مجرم کو بغیر وارننگ قتل کرنا, تعلیم سے ہٹانا, ڈرانا دھمکانا, گھریا علاقے سے نکال دینا۔۔۔ کونسا اسلام ہے۔۔۔ کیا اسلامی طریقہ یہ نہیں کہ اسے عدالت میں لےجایا جائے, اسکی بات سنی جائے, اسکو بحث کرنے کاموقع دیا جائے۔۔۔ کیا پتہ وہ توبہ ہی کرلے۔۔۔

ویسے بھی اسلامی تعلیمات کامقصد انسانوں کی اصلاح کرنے کا موقع دینا ہے, فورا سزانہیں۔۔۔ اور پھراگر ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ہمارے رسول کی, قرآن کی عزت کرے تو پھر وجہ بھی توفراہم کریں۔۔۔۔

ویسے کیا مولوی ہونے کے لئے ضروری کہ وہ مسکین, دوسروں کی خیرات زکواہ پر پلنے والا, محدود سے علم والا, بے ڈول روتا پیٹتا شخص ہو۔۔۔ یا پھرایک خاص لباس پہنے, گردن اکڑائے, اپنی کرسی پر بیٹھہ کر دوسرے فرقوں کی برائیاں نکالنے والا, لوگوں کے عام مسائل سے ہٹ کراپنی خانقاہوں اور آستانوں پردکانداروں کی طرح بیٹھہ کرگاہگوں کا انتظار کرنے والا بے ڈول کوئی شخص ہو۔۔۔ آخر مولوی کوئی نارمل انسان کیوں نہیں ہو سکتا۔۔۔ سوال کرے, سوال سنے, جواب دے, جواب لے۔۔۔

 

Is current educational process in private schools worth spending money on it?

How many O’ Levels students have completed their A’ Levels since it’s introduction in Pakistan?  How many of them have really achieved what they wanted?

ایک اہم بات ہے اوروہ یہ, کہ طلبہ کو خود بھی پوچھنا اورسوچنا چاہئے۔۔۔ کہ بی اے میں دو سال کے لئے ایجوکیشن اور پھر مزید بی ایڈ کے لئے دو یاتین سال کی پڑھائی کا مقصد کیا ہے۔۔۔ ہمارے ہاں جتنی دیر لگتی ہے رزلٹ آنے اور تعلیمی سال شروع ہونے میں, تو چار پانچ سال کے بجائے تقریبا سات سال لگ جاتے ہیں۔۔۔ بی اے سال اول کی طالبعلم جوعموما اٹھارہ انیس سال کی ہوتی ہے, بی ایڈ کرنے تک پچیس چھبیس کی ہوجاتی ہے۔۔۔ اکثر تو اس دوران اس کی شادی ہوجاتی ہے اور ملازمت اسے گھر اور بچوں کے لئے کرنی پڑتی ہے۔۔۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عام پرائیویٹ اسکولوں میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ پاس لڑکیاں کم تنخواہ پر رکھہ کر کام چلایا جاتا ہے۔۔۔ لڑکے شاید ہی ایجوکیشن میں آتے ہوں گے۔۔۔

پھر یہ کہ دوسال ایجوکیشن پڑھنے کے بعد ان میں کیا صلاحیتیں پیدا ہوئیں کیا وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ۔۔۔ آزادانہ اور مثبت سوچ رکھتے ہوں۔۔۔ کسی بھی موضوع پر لکھہ سکیں یابحث کرسکیں۔۔۔ پروفیشنلزم کا مظاہرہ کرسکیں۔۔۔  کسی بھی درجہ کے بچوں کو نتیجہ خیز بنیادی تعلیم دے سکیں۔۔۔ تعلیمی نظام میں جو غلطیاں ہیں انھیں تبدیل کرسکیں۔۔۔

آج تک کےبحث ومباحثوں کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آج تک ہم نے اپنے نظام تعلیم کی ناکامی کا صرف ایک اندازہ لگایا ہے۔۔۔ اور وہ یہ کہ شاید ہم مغربی دنیا کے نظام تعلیم کو نہ صحیح سمجھہ پائے اور نہ رائج کرپائے۔۔۔ نتیجہ کے طور پہ ہم ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو یا تومغربی دنیامیں کامیابی حاصل کرچکے ہوں یا کم از کم اسکے حق میں بول سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ اندازہ نہ لگا پائے کہ یہی تو ہماری ناکامی کی اصل وجہ ہے۔۔۔

دوسری اہم سوچنے والی بات یہ ہے۔۔۔ کہ ہمارے ایجوکیشن/ تعلیم کے سلیبس میں حسب عادت غیر ملکیوں کے نظریات کے علاوہ دارلعلوم دیو بند, علی گڑھ تحریک, ندوہ العلماء وغیرہ کا ذکر ہے لیکن کہیں بھی ابوعلی الحسین ابن عبدالله ابن سینا اور ابن طفیل کے نام کا ذکر نہیں جنکے نام خاص طور پرایجوکیشنل فلاسفی یعنی فلسفہ تعلیم کے موضوع پر مغربی دنیا میں افلاطون اورارسطو کے ساتھہ آتے ہیں۔۔۔ بو علی سینا نے مونٹیسوری اور یوتھہ کی تعلیم کے اصول وضع کئے۔۔۔ ہم جانتے نہیں۔۔۔ یہ مسلمانوں پر ظلم نہیں تو کیا ہے۔۔۔ ایجوکیشنل سائیکا لوجی کی انگلش کی کتاب (جسکو ڈاکٹر عبدالرؤف نے لکھا ہے جو کہ کافی ڈگریز ہولڈر ہیں) سے اسلامی حوالہ جات غائب ہیں۔۔۔ ایجوکیشن کی انگلش میں کورس بک کا سائز ہے تقریبا پانچ انچ بائے   تقریبا سات انچ اور کل صفحات کی تعداد ایک سو چونتیس۔۔۔ گو کہ اس میں امتحانات میں آنے والے عام سوالات کے جوابات  موجود ہیں اور طلبہ نے صرف رٹا لگانا ہے۔۔۔  لیکن طلبہ کے تعلیمی رجحان کے لحاظ سے تو یہ چھوٹی کمزور سی کتاب بھی بہت موٹی ہے۔۔۔

عربیوں نے اپنے مفکرین کے مجسمے بنا کر انکو خراج تحسین پیش کیااورہم ایک علامہ اقبال کی قدر نہ کر سکے۔۔۔  البتہ ہمارے سیاستدانوں نے افتتاحی تختیوں کی یا پھر چوک پر پتھر سے بنے آرٹ کی شکل میں اپنی نا اہلی کے ثبوت ضرور چھوڑے ہیں۔۔۔ کراچی میں جگہ جگہ نصب ملیں گی۔۔۔  میں اسے کہتی ہوں اپنی زندگی میں خود اپنے ہاتھوں سے اپنے کتبے لگانا۔۔۔ کیونکہ یہ تختیاں ہوتی ہیں جن پر انکے کل کارناموں کی تاریخ لکھی ہوتی ہےانھیں اپنی قوم سے تو توقع ہوتی نہیں کہ وہ انھیں اچھے لفظوں میں یاد کریں گے۔۔۔

ویسے ایک بات ہےاور سچی بات ہےکہ ۔۔۔ جس قسم کے نظام تعلیم کی پاکستان میں ضرورت ہے اس کے لئے ماں اور باپ تو اگلےسو سال تک راضی نہیں ہوں گے,  سرپرست ہاتھہ نہیں رکھنے دینگے, ڈونرز فنڈنگ نہیں کریں گے۔۔۔۔۔۔

پہلی چیز تو یہ پسند نہیں آئے گی کہ تعلیمی کورس سب کے لئےایک جیسا ہو, دوسرے یہ کہ لوکل سلیبس پر مشتمل ہو, تیسرے یہ کہ بچوں کو گدھا بنائے بغیر کچھہ سکھایا جائے, چوتھے یہ کہ مقابلہ بازی نہ ہو, پانچویں یہ کہ موجودہ طریقوں اور سوچ سے ہٹ کر ہو, چھٹے یہ کہ کم بجٹ کا ہو, ساتویں یہ کہ اس میں کسی کی شو شا نہ ہو۔۔۔۔۔۔

لہذا یہ تجربہ کیا جاسکتا ہے صرف یتیم, لاوارث اور بے سہارا بچوں پر۔۔۔

شاید اسی لئے زیادہ تر رسولوں اور پیغمبروں کو والدین کے ہوتے ہوئے بھی ایک یا دونوں والدین سے دور رکھہ  کرپالا گیاہو۔۔۔

ان یتیم, لاوارث اور بے سہارا بچوں کی اہمیت یہ ہوتی ہے کہ یہ نیوٹرل ہوتے ہیں۔۔۔ اگرانھیں اچھائی کی طرف راغب نہ کیا جائے تو خودبخود برائی کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔۔۔ مجرمانہ ذہنیت کے لوگ معاشرے کے خلاف انتقامی جذبات و خیالات بھر کر ان کو اپنے برے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔۔۔اور معاشرے پر کس بری طرح اثرانداز ہوتے ہیں اسکی مثالوں سے صرف پاکستانی معاشرہ نہیں بلکہ ساری دنیا بھری پڑی ہے۔۔۔

نظام تعلیم میں سے ذرا دیر کو تربیت اورتنظیم والاحصہ نکال دیں۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ ہماری زندگیوں سے تو یہ عرصہ دراز سےغائب ہی ہے اور والدین سمیت کوئی اس میں ذاتی طور پر اورعملی طور حصہ لینے پرتیار نہیں۔۔۔ بلکہ شاید وزارت تعلیم سے بھی اسکا مطالبہ کرنے پر تیارنہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میرے حساب سے جو کچھہ وزارت تعلیم کی ذمہ داری بنتی ہے وہ ہے لکھنا اور پڑھنا سکھانا اور حساب کتاب کی سمجھہ بوجھہ پیدا کرنا۔۔۔

پھر وزارت تعلیم ملک کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے معاملات سے بیگانہ رہتی ہے جہاں امراء ور شرفاء کےبچے کچھہ سیکھنے سکھانے جاتے ہیں۔۔۔ اور باقی جوآبادی بچی اس کا شاید دس فیصد سرکاری اسکولوں کا رخ کرتا ہوگا۔۔۔ تو اتنی کم تعداد کے لئے صرف لکھنے پڑھنے اور تھوڑے بہت حساب کتاب سکھانے کا بندوبست کرنا موجودہ تعلیمی بجٹ میں کوئی مشکل کام نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر ہے بھی تو تعلیمی بجٹ کو بلاوجہ کے اور فضول ترین بے نظیر انکم سپورٹ کے بجٹ سے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔۔۔

I don’t know why has Turkey agreed upon supporting the most useless Benazir Income Support Program in Pakistan?  Oh, I get it.  It could be the program to generate income for Benazir’s poor family.  Any country must visit Pakistan and take public opinion before responding to our official beggars.

اچھا اس بجٹ میں سے تعلیمی اداروں کی دیکھہ بھال بھی نکال دیں تو جو کام بچا وہ خیراتی اداروں میں اور یتیم خانوں میں ہو ہی رہا ہے۔۔۔ لہذا پاکستان میں کم از کم دس سال تک وزارت تعلیم کی ضرورت نہیں۔۔۔

اب جو کام بچا ہے تعلیم سے متعلق, یعنی لکھنا پڑھنا گننا, اسکے لئے پورا پورا سال ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ یتیم, لاوارث اور بے سہارا بچے تو زیادہ جلدی اور اچھا نتیجہ دے سکتے ہیں۔۔۔

اپنے ملک کا جو بیڑہ ہم سب نے مل کرغرق کیا ہے۔۔۔ اسکو دیکھتے ہوئے اعتراض یہ کیا جا سکتا ہے کہ بھلا اس سے کیا فائدہ ہوگا۔۔۔ ملازمتیں تو پہلے ہی کہیں نہیں ہیں۔۔۔

بہت آسانی سےسمجھہ میں آنے والی بات تو یہ ہے کہ۔۔۔ پرائیویٹ اسکولوں کالجوں والے یا تو ترقی یافتہ ملکوں کا رخ کر تے ہیں یا پھر پرائیویٹ اداروں کے درمیان گھومتے ہیں۔۔۔ سرکاری اسکولوں کالجوں میں جائیں بھی تو مقصد کچھہ دینا نہیں ہوتا بلکہ آسان ملازمت اور حکومتی مراعات کا حصول ہوتاہے, اسی لئے ان سے بہت امیدیں رکھنا فضول ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سرکاری اور خیراتی اسکولوں اور اداروں میں تھوڑ ے بہت ہی سہی پڑھے لکھے باشعور لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جہاں یہ فٹ ہو سکتے ہیں۔۔۔

اس کے علاوہ بھی ذرا دنیا کے حالات پر نظر ڈالیں تو بہت سے مسلمان ممالک بلکہ غیر مسلم ممالک بھی پاکستان سےبد تر حالت میں ملیں گے۔۔۔ پڑھنے پڑھانے والوں کے لئے ہر ملک کے دروازے کھلے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔

ہاں اسکی کچھہ شرائط ہیں۔۔۔ ایک صبر یعنی جلد بازی نہ کرنا۔۔۔ دوسرا قناعت یعنی بہت زیادہ کی توقع نہ رکھنا۔۔۔ تیسرا تسلسل کے لئے مستقل جگہ اور اسباب کا انتظام ہونا تاکہ غیر متوقع حالات کا اثرنہ پڑے ۔۔۔ چوتھے, کیونکہ مستقل مزاجی سے کسی مقصد کے لئے کام کرنے والوں کی کمی رہتی ہے, اس کے لئے متبادل انتظام رکھنا۔۔۔

افسوس کی بات ہے کہ دو ہزار گیارہ میں بھی کسی نے مونٹیسوری اورایلمینٹری کلاسز میں وڈیوز اور کمپیوٹرز کو مستقل ذریعہ تعلیم نہیں بنایا۔۔۔ جبکہ پرائیویٹ, سرکاری اور خیراتی۔۔۔ سارے تعلیمی ادارے اسے افورڈ کر سکتے ہیں۔۔۔ اور یہ اکثر انسانی ذرائع کا اچھا متبادل  بھی ثابت ہوتے ہیں۔۔۔

کسی نے بہت اچھی بات کی تھی کبھی۔۔۔ کہ ساری اردو الف سے ے, ساری انگلش اے سے زی/زیڈ اور سارا حساب ایک سے دس تک کے ہندسوں میں ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کم ازکم اتنی تعلیم تو کوئی بھی دے سکتا ہے اور کوئی بھی لے سکتا ہے۔۔۔ اور کتنے سال لگتے ہیں اتنی سی چیزیں سکھانے میں۔۔۔ کیا الف سے آم, ب سے بلی , آموں کی تعداد اور رنگ, بلیوں کی حرکات بتانے کے لئے کتابوں کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔

سب سے پہلا کام تو یہ کرسکتےہیں کہ کچھہ عرصہ کے لئے تعلیمی عمل کو تین بنیادی حصوں/لیولز میں تقسیم کردیں۔۔۔  پہلے حصہ کا تعلق عمراورکسی مقررہ وقت سے نہ ہو بلکہ اسکا مقصد صرف اور صرف خود سے پڑھنے, لکھنے اور گننے کی صلاحیت پیدا کرنا ہو۔۔۔  ایک خاص بنیادی درجے تک  کا امتحان جو بھی جس عمر اورجس حال میں بھی پاس کرلے اسے ایک ڈگری دے دیں۔۔۔ ایسے امتحان ہر چھہ ماہ بعد لئے جا سکتے ہیں۔۔۔ معاشرہ انسانوں پرمحنت کرنے سے بنتا ہے, چیزوں پر نہیں۔۔۔ انسان صحیح ہوں تو چیزیں رفتہ رفتہ صحیح ہوجاتیں ہیں۔۔۔

اگر ایجوکیشن/ تعلیم کو نویں جماعت  سے شروع کردیں۔۔۔۔۔۔ ( جوکہ مشکل نہیں کیونکہ یہ تجربہ  بہت پہلے ہمارے اسکول میں نویں جماعت میں کیا جا چکا ہے اور وہ بھی سائنس کی کیٹیگوری میں) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کالج کے مزید دوسال ملا کراسے چار سال کابنادیں۔۔۔ اگر اس چار سالہ کورس میں چھٹیوں کی تعداد کم کر کے وقت اور ایام کی مکمل منصوبہ بندی کے ساتھہ پڑھایاجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اس سے بہت سے فائدے ہوسکتے ہیں۔۔۔

کیا مشکل ہے۔۔۔ نہیں ہوسکتا۔۔۔۔

کیا کہا حکومت نہیں کرے گی, نہیں مانے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو حکومت کی بات کون کررہاہے۔۔۔ یہاں عوام اور حکومت ایک دوسرے کی سنتے ہی کب ہیں اورکب پرواہ کرتے ہیں۔۔۔ سرکاری اسکولوں میں تو آج تک بھی مونٹیسوری سسٹم نہیں ہے۔۔۔ پھر یہ ہمارے تعلیمی اور معاشرتی نظام کا حصہ کیسے بن گیا کہ اس کے  بغیر سانس نہیں لیا جاسکتا۔۔۔ سیدھی سی بات ہے۔۔۔ پرائیوٹ, یہ ملک سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر پرائیویٹلی ہی چل رہا ہے۔۔۔ آغا خان بورڈ, اسلامی فرقوں کے اسکول, حفظ کے مدرسے, او لیولز۔۔۔ کیا سرکار فنڈنگ کرتی ہے۔۔۔ تونویں جماعت یعنی چودہ سالہ بچوں کے لئے چار سال کا تعلیم کا کورس, بیس سال کی عمر میں ایک نوجوان یا  نو جوانی علم دینے کے لئے تیار۔۔۔  حکومت یہ تبدیلی لے آئے تو کیا ہی بات ہے۔۔

ویسے جہاں اتنے تجربات ہور رہے ہیں وہاں ایک اور سہی۔۔۔ مطلب یہ کہ نظام واقعی بدل دیں۔۔۔ نہیں, نہیں, بھئی کتابیں نہ بدلیں, سلیبس تبدیل کرلیں۔۔۔ نویں جماعت سے جو مضامین کا مرکب یا کامبینیشن دیا جاتا ہے سائنس, آرٹس, ہوم اکنامکس اور کامرس کا۔۔۔ وہ آج کی دنیا میں فضول ہے۔۔۔ اسکے بدلے تمام طلبہ کے لئے نویں دسویں میں تمام مضامین کا آسان تعارف یا بنیادیات لازمی کردیں۔۔۔ کالج لیول سے مین کیٹیگوریز میڈیسن/طب, انجینئرنگ, تعلیم, زراعت, ماحولیات, اور قانون کردیں۔۔۔

جو مضامین بلا وجہ آرٹس گروپ میں تھے یعنی سائیکالوجی/نفسیات, سوشیالوجی/عمرانیات, پولیٹیکل سائنس/سیاسیات, انٹرنیشنل ریلیشنز/بین الاقوامی تعلقات, اکانومی/معاشیات, لائبریری سائنس, جغرافیہ, تاریخ پاکستان, تاریخ اسلام, سوشل ورک, عربی, فارسی وغیرہ کو دو یا تین اختیاری مضامین کی حیثیت سے مین کیٹیگوریز میں شامل  کردیں۔۔۔ بلکہ کمپیوٹر سائنس, بزنس/ کاروبار, فلسفہ کو بھی ان میں شامل کردیں۔۔۔ کیونکہ یہ وہ مضامین ہیں جن کاتعلق اوپر والی تمام مین کیٹیگوریز سے ہے۔۔۔

اس طرح دوسالوں میں اگر مین کیٹیگوریز کے چھہ پیپرز ہوں تو اردو لازمی, انگلش لازمی اور چار اختیاری مضامین ملاکر کل بارہ پیپرز بنیں گے۔۔۔ یعنی ایک سال میں چھہ پیپرز۔۔۔

اگلے دوسالوں یعنی بیچلرز ک لئےاسی کا ایڈوانس لیول ہوگا۔۔۔

اس طرح پہلی سے آٹھویں جماعت, نویں دسویں اور انٹرمیڈیٹ۔۔۔ تین بنیادی درجہ یا لیولز بن گئے۔۔۔ ان بارہ سالوں کے بعد تقریبا اٹھارہ سال کی عمر ایک لڑکا یا لڑکی معاشرے میں اپنا کوئی  رول ادا کرنے کے قابل ہونگے۔۔۔

ہوم اکنامکس ننانوے فیصد لڑکیوں کے لئے ہے اور اسکے لئے میمن فاؤنڈیشن اور دوسرے پرائیویٹ ادارے موجود ہیں اور بہت اچھا کام کررہے ہیں۔۔۔ اسی طرح فائن آرٹس کے اپنے کالجزاورسینٹرز ہیں۔۔۔

حکومت کی آمدنی کے ذرائع محدود ہوتے ہیں اس لئے انھیں ہوم اکنامکس اور فائن آرٹس پر ضائع نہیں ہونا چاہیے۔۔۔

اس طرح سرکاری کالجز میں مزیدطالبعلموں کے لئے جگہ بن جائے گی۔۔۔


 

 

 

Iqbal’s Stray Reflections!

“Individuals and nations die; but their children i.e. ideas never die.” — Pakistan is Allama Iqbal’s idea, it won’t die.

“I have the greatest respect for Aristotle, not only because I (living in the twentieth century) know him much better than the older generations of my community, but also because of his vast influence on the thought of my people.”

“I confess I owe a great deal to Hegel, Goethe, Mirza Ghalib, Mirza Abdul Qadir Bedil and Wordsworth.  The first two led me into the ‘inside’ of things, the third and fourth taught me how to remain oriental in spirit and expression after having assimilated foreign ideals of poetry, and the last saved me from atheism in my student days.”

The Jewish race has produced only two great men-Christ and Spinoza.  The former was God incarnated in the Son, the latter in the universe.  Spinoza was only a completion of the greatest teacher of his race.”

 

This slideshow requires JavaScript.

 

 

 

 

عملوالصلحت Good Deeds

Just imagine why Allama Iqbal and Quaid-e-Azam focused on establishing a separate system instead of compromising with Hindus and British Govt and introducing Islam as a complete system.  Unlike mullahs and religious scholars, they didn’t emphasize on doing good deeds, charity or donations.  That is because they knew that this is the part of a human nature to help others.  Even the most evil person is satisfied when he/she helps someone.  So good deeds are a part of a human nature.  Islam just put them in order according to their nature of priority so they deliver to resolve problems on a long-term basis.

جہاں اگرچہ دگرگوں ہے, قم باذن الله۔۔۔ وہی زمین وہی گردوں ہے, قم باذن الله

قم باذن الله یعنی کھڑا ہوجا الله کے حکم سے۔۔۔۔ یہ الفا ظ تھے حضرت عیسی علیہ السلام کے جس سے وہ مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے۔۔ وہ برص کے مریضوں کو ہاتھہ لگاتے تو شفا ہو جاتی۔۔۔ انکا ایک واقعہ بھی بہت مشہور ہے کہ جب ایک طوائف کو رجم کرنے کی سزا سنائی گئی تو انھوں نے فرمایا۔۔۔ پہلا پتھر وہ مارے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی اخلاقی تعلیمات اس انتہا پر تھیں کہ فرمایا کہ کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی پیش کردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اتنے عظیم انسان کے ساتھہ ان کی عوام نے کیا سلوک کیا کہ جب بادشاہ وقت نے حضرت عیسی علیہ السلام کو سزا سنائی تو کوئی بادشاہ کے خلاف کھڑا نہ ہوا۔۔۔ یہ صلہ دیا انھوں نے اس پاک شخصیت کا جس کو کبھی شیطان نے نہیں چھوااور جسکا معجزہ وہ دیکھہ چکے تھے کہ پیدا ہوتے ہی اس نے اپنے نبی ہونے اورماں کے پاکیزہ کردار کی گواہی دی۔۔۔۔

نیکی, بھلائی اور فلاح کے کام اخلاقیات کی تعریف میں آتے ہیں اور اسی لئے کسی بھی معاشرے کی روح ہوتے ہیں جو اسے زندہ اورمتحرک رکھتی ہے۔۔۔ اسلام نظریہ کے مطابق یہ حقوق العباد کا حصہ ہیں۔۔۔ اور الله عزوجل کی عبادت یعنی حقوق الله کا ایک جزو ہیں۔۔۔

اسلام میں, عملوالصلحت, یعنی اچھے اعمال کی بڑی اہمیت ہے۔۔۔ اور سورہ العصرمیں بیان کی گئی ان چارنجات کی شرائط میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے انسان  آخرت کے خسارے سے بچ سکتا ہے۔۔۔   بلکہ قرآن میں بار بار اچھے اعمال کی نصیحت کی گئی ہے۔۔۔ اچھے عمل کرنے کرے والے لوگ ہر مذہب, ہر  قوم اور زمانہ میں پائے گئے ہیں اور پائے جاتے ہیں۔۔۔ کیو نکہ یہ انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔۔۔ کسی کی مدد کر کے, کسی کا پیٹ بھر کے, کسی کو خوشی دے کر دل کو سکون ملتا ہے۔۔۔ برے سے برا انسان بھی کہیں نہ کہیں کسی کو فائدہ پہنچا دیتا ہے۔۔۔ اکثر لوگ اپنے گناہوں کے کفارے کے طور پر بھی نیک کام کرتے ہیں۔۔۔ نبی کریم محمد مصطفے صلی الله علیہ والہ وسلم کے اعلان نبوت سے پہلے گو کہ ساری دنیا جہا لت اور گمراہی میں مبتلا تھی لیکن نیکی کا تصور موجود تھا۔۔۔ مکہ کے مشرکین بھی غریبوں کی مدد کیا کرتے تھے۔۔۔ کعبہ کی زیارت کرنے والوں کو پانی پلاتے تھے۔۔۔ ایسے کام برے سے برے معاشرے میں بھی ہو رہے ہوں تو ایک تسلی اور امید بنے رہتے ہیں۔۔۔ لہذا نیکی کے اس فطری عمل کو رکنا بھی نہیں چاہیے۔۔۔

نیک کام کرنا اتناآسان بھی نہیں ہوتا۔۔۔ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے وسائل جمع کرنا اور صاحب حیثیت لوگوں کو اس کی طرف راغب کرنا, وسائل کی تقسیم اور فراہمی میں تسلسل… اور ان سارے کاموں کو بلا معاوضہ رضاکارانہ طور پرانجام دینے کے لئے وقت نکالنا۔۔۔۔۔۔ یہ سب کچھہ چٹکی بجاتے نہیں ہوجاتا۔۔۔۔ جو لوگ اچھے اعمال کر رہے ہوتے ہیں ان ہی کا دل جانتا ہے کہ وہ کن مشقتوں سے گذرتے ہیں۔۔۔

لوگ اچھے کام اپنی مالی حیثیت, جسمانی طاقت, سمجھہ اور صلاحیت کے مطابق کرتے ہیں۔۔۔ اس لئے ان کا یا  ان کے کاموں کا آپس میں مقابلہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ بہت سے لوگ انفرادی طور پر پریشان حال ناداروں کی مدد کرتے ہیں۔۔۔ کچھہ ان پڑھ لوگوں کی تعلیم ک انتظام کرتے ہیں۔۔۔ کچھہ بیماروں اور معذورں کا سہارا بنتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اسی طرح کچھہ لوگ جماعت, تنظیم یا اداروں کی صورت میں تھوڑے بڑے پیمانے پر فلاح و بہبود کے کام کرتے ہیں۔۔۔ عبدالستار ایدھی فاؤنڈیشن, انصار برنی ٹرسٹ, شوکت خانم میموریل ہسپتال, عورت فاؤنڈیشن, کاشانہ اطفال, دارلامان, زندگی ٹرسٹ, سہارا ٹرسٹ, محمودہ سلطانہ ٹرسٹ, ولیج اسکولز,  صراط الجنھ اور پاکستان کے دینی مدارس اوربہت سے ایسے ہی ادارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے اپنے دائرے میں یہ سب ہی نیکی اور بھلائی میں مصرف ہیں۔۔۔۔


 کیا نیکیاں معاشرے میں کوئی اجتماعی تبدیلی لاتی ہیں۔۔۔ 

امریکہ اور مغربی دنیا کو ہمارے ہاں زنا, بے حیائی, شراب, جوئے کی جڑ سمجھا جاتا ہے۔۔۔ تو دوسری طرف ہم انسانیت کے لئے بھی انھیں کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔۔۔ بھارت میں مدر ٹریسا نے عملی طورپر جتنے اچھے کام کئے, گاندھی اور نہرو نے بھی نہیں کئے ہوںگے۔۔۔ پاکستان میں عبدالستار ایدھی کے نیک کاموں کی فہرست بنانے بیٹھہ جائیں تو سال بیت جائے۔۔۔ الله کے اولیاء اور ہزاروں سوشل ورکرز اور فلاح وبہبود کے اداروں سے بھری ہوئی سر زمین پاکستان میں ہر دن بے گھر, غیر تعلیم یافتہ, بیمار لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔۔۔   مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک دنیا کی حالت پر نظر ڈالیں۔۔۔  کیا نیکیوں کے نتیجے اسی طرح نکلتے ہیں اور اچھے اعمال کرنے والوں کے معاشروں کا یہی حال ہوتاہے۔۔۔

اس سے یہ مطلب نہیں نکالنا چاہیے کہ شاید نیک کام کرنے والوں کی نیت ٹھیک نہیں۔۔۔ دنیا کے برے حالات میں نہ تو نیک کام کرنے والوں کی نیت کا قصور, نہ ہی وہ اسکے ذمہ دار ہیں۔۔۔ بلکہ یقینا وہ ہربرے حالات میں امید کی کرن ہوتے ہیں جو مظلوموں اور ناداروں کو حوصلہ دیتی ہے۔۔۔ انھیں جینے کے لئے جسمانی طاقت فراہم کرتی ہے۔۔۔

لیکن بہرحال یہ ایک حقیقت ہے۔۔۔ کہ پاکستان خصوصا دنیا کا سب سے زیادہ عطیات دینے والاملک ہے۔۔۔  اوربدحالی کا یہ حال کہ روزانہ لوگ خود کشیاں کرہے ہیں۔۔۔ خوف, بھوک, جہالت۔۔۔ جبکہ صدقات تو بلاؤں کو ٹالتے ہیں۔۔۔ 

سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کیوں ہے۔۔۔

دنیا میں ایک لاکھہ چوبیس ہزار پیغمبر آئے اخلاقی تعلیمات کے ساتھہ۔۔۔ ان میں سب انبیاء لیکن کچھہ رسول بھی تھے۔۔۔ کتنے ہی نبییوں کو قتل کیا گیا, سولی چڑھایا گیا, آرے سے چیرا گیا۔۔۔ جبکہ ہر پیغمبر اپنی قوم کا نیک ترین اور مخلص ترین انسان تھے جسکی گواہی خود انکے اپنے لوگ دیتے تھے۔۔۔ کیا ان نبیوں کا خلوص اور بھلائی انکی قوم کی سوچ تبدیل کرسکا۔۔۔ انھیں انکے ظالم حکمرانوں کے ظلم سے نجات دلا سکا۔۔۔ حضرت موسی علیہ السلام نبی بھی تھے اور رسول بھی کیوں کہ خدائی قوانین ساتھہ لے کر اترے تھے۔۔۔ انھوں تو بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات بھی دلادی۔۔۔ لیکن انکی عوام کی سوچ آزادی نہیں, بلکہ ننانوے فیصد آبادیوں کی طرح روٹی کپڑا اورمکان تک محدود تھی۔۔۔ انجام یہ کہ الله نے انھیں بھٹکا دیا۔۔۔

رسول صلی الله علیہ وسلم نےخلافت مدینہ کے بعد غزوات کئے, جن میں مسلمان شہید اوربچے یتیم ہوئے۔۔۔ کیا آپ نے کوئی فلاح وبہبود کا کوئی ادارہ بنایا انکے لئے۔۔۔ بعد میں چاروں خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی اس کی کوئی مثا ل نہیں ملتی۔۔۔ اس پورے عرصے میں مالی امداد اوراخراجات کا مرکز بیت المال ہوتا تھا۔۔۔ اور حکومت جو کہ ایک مرکزی نظام ہوتی ہے, بیت المال اس نظام کا حصہ ہوتا تھا۔۔۔

عبدالستارایدھی فاؤنڈیشن, انصار برنی ٹرسٹ, شوکت خانم میموریل ہسپتال, عورت فاؤنڈیشن, کاشانہ اطفال, دارلامان, زندگی ٹرسٹ, سہارا ٹرسٹ, محمودہ سلطانہ ٹرسٹ, ولیج اسکولز,  صراط الجنہ اور پاکستان کے دینی مدارس اوربہت سے ایسے ہی ادارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  خیراتی ادارے جس نام سے بھی موجود ہوں یا جتنی عظیم شخصیت نے کھولے ہوں۔۔۔ وہ معاشرے کے بدحال افراد کو برے حال سے وقتی طور پر بچا تو سکتے ہیں لیکن کبھی شخصیات پیدا نہیں کرسکتے۔۔۔ کیونکہ ذہنی طور پر یہ افراد ایک دباؤ کا شکار ہوتے ہیں کہ ہم دوسروں کے وسائل پرپلے بڑھے ہیں۔۔۔ ان میں وہ اعتماد نہیں ہوتا جو ایک خاندان میں آزادنہ طور پرپلے لوگوں کی شخصیت کا حصہ ہوتا ہے۔۔۔

جب کسی ملک کے فلاح وبہبود اور امدادی کام مرکز سے ہٹ کر نیکی کے نام پہ عوام کے ہاتھہ میں آجائیں تو عوامی دولت اورعوام  کی توجہ, دونوں کئی حصوں میں  تقسیم ہو جاتی ہیں۔۔۔ عوام کی توجہ اور دولت وہ طاقت ہیں جو تقسیم ہوجائیں توحکومتی عہدیداروں کو قومی خزانہ لوٹنے کے بہترین مواقع مل جاتے ہیں۔۔۔  حکمران مطمئن رہتے ہیں کہ چلوعوام آپس ہی میں کچھہ کرکرا کے مسائل کا حل نکال لیں گے۔۔۔۔۔۔۔ غریب, محروم, ضرورت مند لوگوں کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے ایک آسان راستہ ہاتھہ آجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ  خود کو بے بس اور مجبور سمجھتے ہوئے حکومت سے الجھنے یا  ٹکرانے کے بجائے فلاحی اداروں کے در پر جا پڑتے ہیں۔۔۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے کے لوگ جو کمانے کے قابل ہیں ان پر بوجھ بڑھہ جاتا ہے۔۔۔ ایک طرف وہ فرض کے نام پر ٹیکس د یتے ہیں تودوسری جانب نیکی کے نام پر سینکڑوں کو پالتے ہیں۔۔۔

نیکی اور بھلائی کے کام, فلاحی منصوبے, صدقہ وخیرات۔۔۔ یہ سب آخرت میں پھل دیتے ہیں یا پھر دنیا میں انفرادی فائدے۔۔۔ یہ توقع کرنا کہ مفت نیکیاں کرتے رہو ای دن لوگ اچھے ہو جائیں گے, لوگوں کا مفت پیٹ بھرتے رہو ایک دن بھوک مٹ جائے گی, مفت علاج کرتے رہو بیماریاں ختم ہوجائیں گی, مفت تعلیم دیتے رہو جہالت ختم ہوجائے گی۔۔۔ آج تک نہ ہوا ہے نہ ہوگا۔۔۔  نیکی اور بھلائی کو نظام بننے کے لئے قانون اوراس کو نافذ کرنے والے قوت بازو کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ جبکہ ہم نےعملوالصالحات یعنی نجات کی آخری شرط کو اسلام کا مکمل نظام سمجھہ لیا ہے۔۔۔

اگراب بھی بات سمجھہ نہیں آئی تو سوچیں کہ ۔۔۔ فلاحی اور خیراتی اداروں کی تعداد میں اضافہ, انکے عطیات اور چندہ کی رقم میں اضافہ, ان کے در پر آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا معاشرے کے بہتر ہونے کی علامت ہے یا بدتر۔۔۔ کیا یہ اطمینان کا مقام ہے یا فکر کا۔۔۔ کیا اس طرز نیکی کی زیادتی سے مستقبل میں قوم کے معمار پیدا کئے جاسکتے ہیں یا حسب عادت ایک مسیحا کاانتظار کرنے والے ۔۔۔۔۔۔ 

کیوں آخر محمد مصطفے صلی الله علیہ وسلم ہی صرف تیئیس سال کےعرصے میں وہ  نظام قائم کرسکے جس  میں لوگ بھوکے مفلس تو تھے, بھکاری نہیں تھے۔۔۔ ایک بہتر زندگی زنگی کے خواہشمند تو تھے لیکن دوسروں کی جان, مال اورعزت کی قیمت پر نہیں۔۔۔ جہاں حضرت بلال کو اسلام لانے کے بعد بھی وہی تکلیفیں سہنی پڑیں اور فاقے برداشت کرنے پڑے جو امیہ کی غلامی میں تھے لیکن اب وہ آزاد تھے اور  اپنی مرضی سب کچھہ برداشت کرتے تھے, ذلت سے نہیں۔

سلام ہوعرب کے ان غلاموں اور ان پڑھ  لوگوں پرجنھوں نے چودہ سو سال پہلے اسلام کے مرکزیت کے تصور یعنی ۔۔۔ لاالہ الا الله ۔۔۔ کو سجھا اور آپس میں تفرقہ پیدا کرنے والی ہر دیوارگرادی۔۔۔

یہ نظام روٹی, کپڑا, مکان, ذاتی پسند, ذاتی زندگی اور مقابلے کےفلسفے سے شروع نہیں ہوا تھا۔۔۔  بلکہ ایک اجتمایت, مرکزیت اور کسب حلال کے تصور سے شروع ہوا۔۔۔ جہاں چندہ عوام کی ضروریات زندگی نہیں بلکہ قوم کے دفاع کے لئے مانگا جاتا تھا۔۔۔

 یہ دولتمند لوگوں کے لئے, محنت سے کمانے والوں کے لئے نہ صرف فکر کا مقام ہے بلکہ انکے خوشحالی مستقبل کا سوال بھی۔۔۔۔ اگر ہم نے فلاح وبہبود کے اس تصور کو نہ سمجھا اور ان اصولوں کو نہ اپنایا جو اسلام نے سکھائے ہیں۔۔۔ تو آنے والا دور بھوک مفلسی اور جہالت میں اضافہ ہی لےکر آئے گا۔۔۔

 صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی کچھہ احادیث کے مطابق ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ مسلمان زکات دینے کے لئے مستحقین کو ڈھونڈیں گے اور کوئ زکات لینے والا نہ ملے گا۔۔۔ یہ دنیا کی خوشحالی کا دور ہوگا۔۔۔۔ 


Unified Education in Pakistan

Unified educational system is in favour of common Pakistanis and is necessary for Pakistan’s peace and progress.  Those who are sincere to Pakistan must keep it a priority even if it take years in implementation.  It is going to be the most difficult task to gather the representatives of public schools, private schools, madrasahs, schools run by political figures, Agha Khan system, O’ Levels and home-schooling for the purpose to help in designing a unified syllabus from first to matriculation.

یکساں تعلیم کا کوئی بھی آئیڈیا فضول ہے اگر وہ عام لوگوں کو ملک کے سیاسی عمل میں حصہ لینے کا اوراقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کا موقع فراہم نہ کرے۔۔۔۔۔۔  لہذا پاکستان میں امن, ترقی, خوشحالی اور مضبوط  دفاعی طاقت کے لئے یکساں تعلیم کے ساتھہ ساتھہ  قوانین میں تبدیلی یا نئے قوانین ضروری ہیں۔۔۔

مثلا سیاسی عمل میں حصہ لینے کے لئے انٹرمیڈیٹ کے ساتھہ سیاسیات, بین الاقوامی تعلقات, معاشیات کا علم لازمی ہو۔۔۔ امیدوار لازمی طور پر حکومت پاکستان سے سند یافتہ ہو۔۔۔ لازمی طور پر پاکستانی قومیت رکھتا ہو۔۔۔ اپنے علاقے میں اسکا کردار کیا ہے۔۔۔ ذریعہ آمدنی, ذاتی اثاثے کیا ہیں۔۔۔

ایک یکساں یا قومی تعلیمی نظام کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ مضامین اور موضوعات سب کے لئے لازمی ہوں۔۔۔ بلکہ ایسا نظام تعلیم جس میں مختلف عقائد, مختلف نظریات اور مختلف زبان بولنے والوں کے لئے چوائس موجود ہو۔۔۔ اوریہ کسی کے لئے بھی علم وہنر سے متعلق بنیادی معلومات فراہم کرسکے۔۔۔ لیکن ہوں مرکزی حکومت کے کنٹرول میں۔۔۔
دنیا کا کوئی ملک اورکوئی نظام اس سے زیادہ یونیفائیڈ تعلیمی نظام نہیں دے سکتا۔۔۔

 اگر کسی جگہ کے لوگ ایک زبان بولتے ہوں, انکے عقائد ایک ہوں اور نظریات میں بھی فرق نہ ہو۔۔۔ اسکے باوجود بھی وہ اس سے زیادہ یکساں تعلیم کا تصور نہیں دے سکتے۔۔۔ کیونکہ بہرحال اگرانھوں دنیا کی باقی قوموں کے ساتھہ معاشی اور سیاسی روابط رکھنے ہیں توپھران کے نظام اور نظریات کو کسی حد تک اپنے تعلیمی نظام کا حصہ بنانا پڑے گا۔۔۔

اور یہ کوئی نیا آئیڈیا نہیں۔۔۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں موجود ہے ۔۔۔ اور غیر اسلامی بھی نہیں۔۔۔ 


کیا پاکستان میں مدرسے, سرکاری اسکول,  پرائیویٹ اسکول, آغا خان سسٹم, اولیولز, خیراتی اسکول, یتیم خانے, سیاسی شخصیات کے اسکول اور ہوم اسکولنگ مرکزی حکومت کے تحت کام نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرسکتے ہیں اگر بنیادی تعلیم کے علاوہ پرائیویٹ اسکولز کے مشکل, مہنگےاور درآمد شدہ سلیبس کو اور مدرسے کے کورسزکو ایڈوانس مضامین کی فہرست میں ڈال دیا جائے۔۔۔ اس طرح بنیادی تعلیم تو سب کے لئے ایک جیسی ہو گی لیکن ایلیٹ, غیر ملکی, مذہبی, صوبائی یا اور دوسری زبانیں بولنے والوں کے لئے اختیاری مضامین کی شکل میں چوائس موجود ہوگی۔۔۔ اہم بات یہ ہوگی کہ سند حکومت پاکستان کی ہو۔۔۔ اس کے لئے جگہیں بدلنے کی بھی ضرورت نہیں۔۔۔ اپنی اپنی جگہوں پر تعلیم حاصل کریں اور امتحانات دیں۔۔۔  اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ تعلیمی اداروں کو نیشنلائز کردیا جائے۔۔۔ پرائیویٹ اسکول کالجز, مدرسے۔۔۔ سب اپنی جگہ پر بنیادی تعلیم کا سرکاری ریکوائرمنٹ پوری کریں۔۔۔ پھر طلبہ چاہیں جو مضامین ایڈوانس لیول پرپڑھیں۔۔۔ 

اسکے فوائد کیا ہونگے۔۔۔

سارا کا سارا تعلیمی نظام ایک مرکز کے تحت کام کرے گا۔۔۔ جس سے مرکزی حکومت کو اہمیت حاصل ہو گی, وہ مضبوط بھی ہوگی ۔۔

علمی بنیادوں پرلوگوں کی تقسیم اور تفاخر بہت حد تک کم ہو جائے گی۔۔۔ کیونکہ تمام کے تمام مضامین پر تعلیمی اسناد پہ ٹھپہ یاسیل مرکزی حکومت کی ہو گی۔۔۔

پاکستان میں سب سے بڑا تعلیمی فرق مدرسہ اور اسکولز کی تعلیم میں ہے۔۔۔ ایک کو شرعی تعلیم کہہ کر محدود کردیا۔۔۔ دوسرے کو جدید تعلیم کہہ کر کفر یا غیر شرعی یا دنیاوی قرار دے دیا۔۔۔ پاکستان کے ماحول میں دینی اور ماڈریٹ کا فرق بھی کچھہ کم ہوگا۔۔۔ اوردینی لوگوں کی آئے دن کے نفاذ شریعت کی دھمکیوں کا زور بھی کم ہوگا۔۔۔ اور دونوں قسم کے لوگ ایک ہی مرکز تلےآجائیں گے۔۔۔

صوبوں کے درمیان تعلیمی فرق بھی کم رہ جائے گا۔۔۔ ایک صوبے کے رہنے والے کو دوسرے صوبے میں جاکر تعلیمی سلسلہ بدل جانے کی شکایت نہیں ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیراتی اسکولوں اور فلاحی اداروں کے بچوں کا کم از کم علمی بنیادوں پر احساس محرومی ختم ہوجائے گا۔۔۔ انکے پاس بھی کیونکہ  سرکاری سند ہوگی۔۔۔

پھر یہ کہ پرائیویٹ یا ہوم اسکولنگ والے بچوں کے لئے جو سائنس نہ لینے کی پابندی ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی کیونکہ سائنس تو میٹرک تک لازمی ہی ہوگی۔۔۔ 

یہ سب کرنا آسان نہیں۔۔۔

چوں کہ ہمارا حکمران طبقہ جاہل اور ذہنی طور پر غلامانہ سوچ رکھتا ہے  وہ امریکہ اور مغربی دنیا کےاشارے کے بغیر کچھہ نہیں کرتا۔۔۔ اس لئے عوام کو ہی شور مچانا پڑے گا۔۔۔ اپنے اپنے علاقے کے سیاستدانوں اور حکومت پر دباؤ ڈالنا پڑے گا۔۔۔ اور وہ بھی کافی عرصے تک۔۔۔ 

دوسرا بڑا مسئلہ دینی فرقے ہیں۔۔۔  انکا کسی بھی معاملے کو سمجھداری سے نمٹانا نہ ممکن سا لگتا ہے۔۔۔ لیکن بہرحال معجزات بھی تو ہو سکتے ہیں۔۔۔  

تیسرا مسئلہ او لیولز اور آغا خان بورڈ۔۔۔ پرائیوٹ اسکولز اور برٹش تو او لیولز کے نام پر کڑوڑوں روپے احمق پاکستانیوں سے کمارہے ہیں۔۔۔ بھلا وہ اس لوٹ مار کو کیسے بند ہونے دینگے۔۔۔ دو سال بعد کا کورس دوسال پہلے پڑھا دیا تواس سے معیار بلند تو نہیں ہو جاتا۔۔۔

چوتھا مسئلہ ہے ہمارا طریقہ تعلیم جو خاص طور پر ابتدائی درجات میں اور ویسے بھی کتابوں اور کاپیوں کے گرد گھومتا ہے۔۔۔ اکثر تین یا چار سال کےبچوں کو بھی کتابوں اور کاپیوں سے لکھنے پڑھنے پر لگادیا جاتا ہے۔۔۔ یکساں تعلیم کا سن کر سب کا ذہن جائے گا ایک جیسی کتابوں کی طرف۔۔۔ حالانکہ یکساں تعلیم کا مقصد یکساں نتیجہ حاصل کرنا ہوتا ہے نہ کہ یکساں طریقہ تعلیم۔۔۔

پانچواں مسئلہ ہے خیراتی اسکولوں سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا۔۔۔ یہ تو چلتے ہی عطیات زکات پر ہیں۔۔۔ کوئی معیارقائم ہوگیا تو چندہ کون دے گا۔۔۔
چھٹا مسئلہ وہ اسکول جو سیاسی شخصیات نے کھولے ہیں یا انکے پرنسپلز بنکے بیٹھے ہیں۔۔۔ وہ برداشت کر لیں گے کہ انکا اور انکی مخالف پاڑٹی کے اسکول کا معیار ایک جیسا ہو۔۔۔

ساتواں مسئلہ یہ کہ حکومت کی طرف سے بنیادی تعلیم کا سلیبس ترتیب کون دے گا۔۔۔ ملک میں ہزاروں کی تعداد میں بپبلیکیشنز ہیں اور ساری ہی کہیں نہ کہیں استعمال ہورہی ہیں۔۔۔ اسی طرح مدرسے کے کورسز ہیں, سینکڑوں کی تعداد میں کتابیں ہیں۔۔۔ کوئی کسی کتاب کو ابتدائی درجہ کے لئے موزوں سمجھتا ہے تو دوسرا اسے ایڈوانس لیول رکھتا ہے۔۔۔ کیا مدرسے, سرکاری اسکول, پرائیویٹ اسکول, آغا خان سسٹم, اولیولز, خیراتی اسکول, یتیم خانے, سیاسی شخصیات کے اسکول کےنمائندے اور ہوم اسکولنگ کی طرف سے والدین اس میں ایک سطح پہ آکر حصہ لیں گے۔۔۔

آٹھواں مسئلہ بنیادی تعلیم کی تعریف اور اسکا معیارکیا ہونا چاہئے۔۔۔ یہ کون بتائے گا۔۔۔

What could/should be the definition of unified education in Pakistan?  Is unified education the synonym of fundamental education?

PHONICS:

I totally disagree with introducing phonics to our educational system at any level except for if there is a dire need of it.  Such as for especial children.

Pakistan’s modern education system is founded upon foreign-based ideas, methods, contents and curriculums.  Phonics is one of the method that was introduced with the purpose of quality education.  On one side, we have a government that consists of illiterate ministers and parliamentarians like Jamshed Dasti who are possessed with ignorance.  On the other side, we have educated people who are obsessed with imported items.  Both groups are dangerous for our identity as they both lack confidence, wisdom and spirit of freedom.  In short, they are slave-minds.

Western countries are developed and advanced countries.  One reason of their progress is that they don’t import but introduce ideas.  Now, instead of learning from them, we try to copy them as it is.  We waste our energy and time in convincing people that this imitation will get us some respect in the Western world.  What a rubbish!

These countries introduced phonics as a technique to enhance reading ability through sound of letters.  It is sound of a letter at the beginning or at the ending of a word, sound of vowels and sound of a compound.  English is their mother tongue.  This is the language they communicate in 365 days a year.  Before introducing any idea to their system, they study their people and the nature of requirement, they design it in a form of step-by-step guideline, they compose it in a timely manner, they train faculties, they prepare parents’ mind to accept it, their purpose of introduction is not to rip off money, it is to bring improvement.  Phonics may be good for them because they are not in hurry.  They don’t teach in large groups.  They don’t have to pressurize their children for quick learning so that they can get first position.  They don’t want to run away from their country after higher education.

Still I don’t get it that how do they figure out that at what age or level, their student should know the sound of letter ‘c’ as /s/ or /k/ — or ‘g’ as /g/ or /j/– then the difference between c and k and g and j –or the sound of ‘ph’ as /f/– or the sound of letter ‘u’ in but, put, use, blue — or merging the sounds of two vowels like in ‘road’, ‘lead’, belief — or when to use ‘the’ as ‘tha’ or ‘thee’ — or when do letters become silent?….at what age or level, students won’t need to use phonics?….. is phonics really meant for all students in general or only for special children?

In alcoholic societies, children are born with slow mental progress, brain disorders, mental retardation, low tolerance, difficulty in reading and relating connections and reasons.  So phonics is a useful technique for them in general.

Pakistanis are very talented people.  Lacking healthy environment and health facilities, our children are still born normal.  It is parents and the overall system that suck their abilities to progress.

Phonics is not good for our children.  It is damaging their brain, slowing down their learning abilities, burdening them with confusing sounds of a foreign language.  Our Montessori teachers are intermediate or B.A, B.Sc or B.Com.  They are not trained to deal with children, how to teach, how to behave, how to handle them.  Even the ones certified from Early Childhood Training Centers don’t know how to plan for phonics.  Even their sounds of letter differ in length and pronunciation.  For example, 95% of them mix up the short vowel sounds of ‘a’ and ‘e’, ‘v’ and ‘w’…. pronouncing very to vaary, was to vas, bed to baad, red to raad.  Also, it is a non-sense to teach normal children the normal things sounding like animals, aa, baa, caa, daa, skipping e, faa, haa, skipping i, at ‘G’ they are confused if alone it sounds like ‘g’ or ‘j’.  A child who is not even familiar with the sequence of letter, how can he learn their sounds skipping vowels and with exceptions?

If this is all we are doing to teach English as a language, both in speaking or reading, then we should focus on improving children’s listening skills, through stories, discussions, discipline and instructions.

 

 

 

 

 

MATRICULATION:

Matriculation is the tenth year of regular schooling system.  Generally, matriculation is defined as a process that prepares students for college level.  In America, it is part of the high-school which ends at Twelfth Grade.  Prior to partition, in South Asian region, it was regarded as a sign of honour and wisdom.  Even after the establishment of Pakistan, “matric paas students” were preferred for jobs and matrimonial proposals.

One aspect of our overall failure is that our governments never planned for improving educational system according to the growth in population and in comparison to the new world challenges.

The situation we are facing right now is that on one hand we have masters and bachelors complaining about suitable job opportunities while lacking professionalism.  On the other hand, we have a huge number of matriculated youth being hired at low salaries obviously not fulfilling any professional requirements.  Another horrible reality that we face in our system is that we never think of solving problems according to the mental and social level of our own people.  Most of our celebrities from different fields of Fine Arts, when don’t find anything else to do or let’s say when they think of serving nation, they start opening school or join some famous chains at high position.  Durdana Butt, Rahat Kazmi, Huma Akbar, Afshan Ahmed, Khushbakht Shuja’at, Jawad Ahmed, Shezad Roy and many more.  Have they ever tried to sit together and discussed how they can bring a change in the existing system, how they can get together to build a unified educational system that has something to do with Pakistan and with the people of Pakistan???

In Ninth and Tenth Grades, subjects are divided into three or four main groups which doesn’t make a sense.  At least not now.  Students have to choose to study either from Science Group, Arts or Humanitarian Group, Commerce Group or may be computer.  After two years of study, the Science group students have no idea about even the basic concepts of Economy, Psychology, Sociology, Education, Political Science, Sociology etc.  The Arts/Humanitarian group remain ignorant about simple Math, the basics of Zoology, Botany, Biology, Physics, Chemistry etc.  In Science group they don’t focus on writing skills and speech power.  Now what if a Science student has to deliver a speech about plantation to grow economy or write an essay on wild life in Sindh or prepare a Science syllabus for Elementary classes.  The career choices for Arts group students are to become a writer, singer, musician, performer, painter etc.  What if they have to write a true story of a zookeeper hero falls into love with a marine-biologist or a drama about a singer studying plants part-time.  All of them have zero knowledge about environment.

I just remembered this drama of Indus TV (I forgot the name) that was about a hospital, doctors, nurses and patients.  I really thought that it was a parody of some American medical shows because the whole serial was totally non-scientific.  The serial didn’t teach a single medical term to the viewers, neither it brought any awareness about health and hygiene.  They didn’t even discussed the problems of doctors and patients in our society.  Each episode was focused on the make up and style of female actresses (doctors/nurses), love affair between the staff, emotional scenes of patients coming depressing background.

Back to the point, this two-years of matriculation becomes useless if they decide not to (as most of the students do) join any college or institution for further studies.  The matriculated students are not given jobs on the basis of subject grouping.  The idea is to eliminate grouping subjects in Ninth and Tenth Grade and to introduce an intensive occupational studies course of one or two year instead to equip our students with the fundamentals of main subjects in each existing group.  Girls are usually hired as assistant teacher, teacher, receptionist, office-helper, factory worker etc.  Boys get jobs as sales person, clerk, cashier, messenger, dyer, courier etc. Many other countries are doing it.  My two-years of occupational studies course was composed to accounting, business maths, writing skills, keyboarding, typing, business law, psychology, personal management, fundamentals of computer, literature, business management etc.  Why can’t we introduce such kind of grouping here?

ہمارے ملک میں تعلیم کی منصوبہ بندی کی جتنی  کمی ہے اس سے کہیں زیادہ زندگی کی منصوبہ بندی کی کمی ہے۔۔۔ تعلیم کا معیار جتنا کم ہے تربیت کا معیار اس سے بھی کم۔۔۔ جتنا تعلیمی نظام بگڑاہواہے اس سے زیادہ سماجی اورسیاسی نظام بگڑا ہوا ہے۔۔۔ حالانکہ تعلیم سے پہلے ان سب چیزوں کاہونا ضروری ہے۔۔۔ یعنی زندگی کی منصوبہ بندی,  تربیت کا معیار اور مضبوط سماجی اورسیاسی نظام۔۔۔۔۔۔

ہمارے ہاں عام تعلیم کی حد میٹرک یعنی دسویں جماعت ہے۔۔۔ اسکی ایک وجہ لوگوں کے معاشی حالات انھیں لڑکوں کو آگے پڑھانے کی اجازت نہیں دیتےاور وہ کسی کام سیکھنے پر بٹھا دئے جاتے ہیں۔۔۔ لڑکیوں کی شادی ہوجاتی ہے یا منگنی۔۔۔ پھر وہ جب موقع ملے پرائیوٹ ہی پڑھتی ہیں۔۔۔ اکثر پرائیوٹ اسکول میں میٹرک یا انٹر پاس لڑکیوں کوٹیچرز رکھا جاتا ہے جو کم تنخواہ پر کام کرنے پر راضی ہو جاتی ہیں۔۔۔ دوسری وجہ تعلیم کی اہمیت کو نہ پہچاننا۔۔۔ اکثریت اسے اسکول کالجز کی کاروائی سمجھتی ہے, جس میں امتحان پاس کرنا ایک بڑا مرحلہ ہوتاہے۔۔۔ اور جو اہمیت بتائی جاتی ہے اسکے مطابق ملازمتوں کا نہ ملنا۔۔۔ کم عمر میں کم تعلیم اوربے تربیتی کے ساتھہ آگے بڑھنے کاراستہ کرپشن ہوتاہے۔۔۔

میٹرک پاس بچوں میں ان صلاحیتوں کی ازحد کمی ہوتی ہے جو ایک لڑکا یا لڑکی میں دس بارہ سال کی اسکولنگ اور گھریلو تربیت کے نتیجے میں ہونی چاہئیں۔۔۔ سوچ, رکھہ رکھاؤ, انفرادیت, معلومات عامہ, آگے بڑھنے کا جذبہ, بہتری کی خواہش, مسائل کو سمجھنا انکا حل تلاش کرنا, منصوبہ بندی کرنا, خودانحصاری۔۔۔۔۔۔

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ نویں جماعت سے جومضامین کی گروپنگ کی جاتی ہے اور اس میں موجود مواد کا انتخاب  اکثر بے فائدہ ہوتا ہے۔۔۔ مثال کے طور پر سائنس گروپ کے بچے ایجوکیشن, سیاسیات, معاشیات کے تصور سے بھی ناآشنا ہوتے ہیں۔۔۔ حالانکہ ایک سائنس کے طالب علم کو کمانا تو ہوتا ہی ہے, اس کا تعلق ملکی سیاست اور تعلیمی نظام سے بھی ہو تا ہے, لوگوں کی نفسیات سے بھی ہوتا ہے۔۔۔ خاص طورپر ان بچوں کے لئے جنھوں نےمیٹرک کے بعد تعلیم کو خیرآباد کہہ دیناہو۔۔۔ لازمی ہے کہ وہ ضروری مضامین کے بنیادی تصور اور انکی حقیقی زندگی میں کارآمد ہونے سے واقف ہوں۔۔۔

آٹھویں جاعت کابچہ عموما تیرہ سال کاہوتا ہے۔۔۔ اگر نویں اور دسویں یعنی دو سال مضامین کی گروپنگ کے بجائےایک ایسا تعلیمی کورس مرتب کردیا جائے جس میں موجود مواد انکے کام کاہو تو تعلیمی نظام اورسماجی نظام دونوں میں بہتری آسکتی ہے۔۔۔

فوری طور پر حکومتی سطح پر تو تبدیلی ناممکن ہے۔۔۔ لیکن دن بہ دن بڑھتی ہوئی آزمائشوں کا آسانی سے مقابلہ کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی نئی راہ تو نکالنی پڑے گی۔۔۔ لوگوں کے ذہنوں کو بہتر تبدیلی کے لئے آمادہ کرنا شاید دنیاکاسب سے مشکل کام ہوتاہے۔۔۔ باہر ممالک کی طرح اگر ایک سال یا دو سال کا  آکیوپیشنل اسٹڈیز کا انٹینسو کورس جس میں کتابوں سے زیادہ تحقیق, بحث اور لکھنا شامل ہو متعارف کرائے جاسکتے ہیں۔۔۔ جس سائنس, آرٹس, کامرس, کمپیوٹر کے بجائے پرفیشنل اسکلز کو ابھارنے پر مرکوز کیا جائے۔۔۔ کیونکہ ابھی تو حال یہ ہے کہ ہمارے ببیچلرز اور ماسٹرز کوبھی ملازمت کی درخواستیں نہیں  لکھنی آتیں۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

EDUCATIONISTS:

We all have endorsed the fact that our schools and colleges are worthless places for providing with any useful training or education of at least international level.  If they do then what do we complain about.  If they don’t then we must think of ways changing it.  In order to change it, we must discuss what kind of change do we want and why.

Since we all know our teachers, most of them have no passion for their profession, others are either over-burned with piles of responsibilities or are obstructed due to limited resources.

The private institutions (from Montessori to college level) can make a difference by using technology at their premises.  Few years ago, I gave this idea to a school owner that the principals of different schools in a certain area can arrange a workshop once a month for teachers’ training.  They can gather at some place and exchange their expertise.  They can exchange good ideas, curriculum and other activities.  They can also watch educational videos to learn effective teaching skills.  Plus they can plan community visits and inter-school competitions.

Principals can sit together and think of ways to reduce the cost of education and make it affordable for parents.  For teachers’ convenience, they must provide them with some kind of help in their daily routine.  They must be given enough time to get organized, to check students’ work and a precise syllabus according to students’ level.

Preschools, schools and colleges can use videos, CDs and DVDs to occupy children with educational learning.  Children can be kept involved with Adam’s World, Sound Vision and Astrolab productions, Seasame Street, Barney, Between the Loins (children’s show about vowels) and other good shows on daily basis.  They can learn new vocabulary, songs, games and manners by watching these videos.  Just half-hour video everyday can play a big role in keeping them busy with something interesting for their age.  That half-hour or one hour will be a spare time for teachers to relax a little and finish their checking.

Even public schools, colleges and universities can take advantage of the technology (I don’t want to call it a new technology since it belongs to the last century).

If the public and private institutions are not interested in it, still a great idea for charity schools and other places where unwanted or homeless children are accommodated for any reason.  Such as Edhi’s children section, orphanages, etc.

Many of our high profiles like Ms. Afshan Ahmed, Madam Khushbakht Shuja’at, Mr. Rahat Kazmi, Madam Durdana Butt, Mr. Shezad Roy, Mr. Jawad Ahmed and many others who claim that they are very sensitive towards the issues of our society, must sit together and plan something.  All these ‘sensitive’ educationists can influence the parents with whatever they come up with (something like negotiations or conclusions).

Cost-Reduction in Education:  It’s possible.

1) Little children can learn to write and to draw things on slates (old fashioned) instead of wasting money on copies/notebooks and drawing copies.

2) Instead of buying books in Montessori, they can learn alphabets, numbers and words on board or charts.

3) Instead of buying supplies, school can charge a little amount from each parents and purchase the necessary items in bulk on discount,  keep them in classes and train children to share them, use them and organize them.

4)  Painting school walls with cartoons and animals looks horrible and messy, it doesn’t help them in learning.  Instead, take them to the nearby park, zoo, keep a pet or give them some other activities to show them the real colours of life.  They need to be trained to face the reality, not to be lost in myths and mysteries or unnecessary imaginations.

5) Avoid phonics, it makes normal children read like foolish.  Just teach them the letters like a normal insaan ka bacha is supposed to learn.  Children are human beings too, they should not learn to read by making strange animal sounds.  After all, our teachers don’t know how and when to teach phonics.

 

 

 

 

New Political Science جدیدسیاسیات

Isn’t it time to change the way we think and discuss things in educational institutions, if we really do so?

Don’t we need to design a new syllabus for Political Science?  What should be the contents of the new syllabus?

لفظ مہاجراسم مفاعل ہے اور نکلا ہے ہ ج ر یا ہجرسے,  یعنی ترک کردینا, چھوڑ دینا۔۔۔ اردو میں جدائی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔۔۔  عام زبان میں مہاجر وہ شخص ہوا جو اپنا وطن, اپنا علاقہ کسی وجہ سے چھوڑنے پر مجبور ہوجائےاور کسی دوسرے ملک یا علاقے مں عارضی طور پر پناہ لے۔۔۔ اس وقت تک کے لئے جب تک اسکے اپنے ملک میں حالات اچھے ہو جائیں اور وہ واپس جا سکے۔۔۔ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمان کچھہ عرصے بعد مکہ واپس آگئے تھے۔۔۔

وہ شخص جو اس نیت سے کسی دوسری جگہ جائے کہ وو وہاں مستقل رہے گا, گھربار بنائےگا, اس ملک کے باشندوں کے ساتھہ مل کر وہاں کے نظام کا حصہ بن جائے گا, مہا جرنہیں کہلایا جاسکتا۔۔۔ مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے والے مسلمان مدینے کی خلافت قائم ہوتے ہی بھائی بھائی اور برابر کے شہری بنا دئے گئے تھے۔۔۔ اور مہاجرین اور انصار کا فرق مٹادیا گیا تھا۔۔۔

  شہری ہونا مہاجر ہونے کے الٹ ہے۔۔۔ شہری ہونے کا مطلب ہے اپنے ملک, اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھہ مخلص اور وفادار ہونا۔۔۔ انکے ساتھہ مل کرمعاشرے کی تعمیر میں حصہ لینا۔۔۔ حتی کہ سب کے مستقبل کی فکرکرنا۔۔۔

جو شخص اپنے ہوش و حواس کے ساتھہ اپنی قومیت بدلنے کا فیصلہ کرے اس ملک کا شہری ہی کہلاے گا, مہاجر نہیں۔۔۔ البتہ اس قوم کے لوگ اس شخص کی وفاداری کو پرکھتے ضرور ہیں۔۔۔ مثال کے طورپر امریکہ میں وہاں کی شہریت حاصل کرنے کے لئے پانچ سال وہاں رہنا ضروری ہے, شاید اس لئے کہ پانچ سال میں وہ وہاں کے نظام, رسم وروایات کو اچھی طرح سمجھہ لے, اس دوران انھیں ایلین شپ یا ایک اجنبی کی طرح رہنے کے لئے کارڈ دے دیا جاتا ہے جس کی بنیاد پر اسے بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

اسکے بعد وہ حلف یعنی زبانی عہدو پیماں کرواتے ہیں۔۔۔ میں یہ عہد کرتا/کرتی ہوں۔۔۔ حلف دیتا/ دیتی ہوں کہ۔۔۔ میں ترک تعلق کا اعلان کرتا/کرتی ہوں۔۔۔ ہرقسم کی وفاداری اور تعلق سے۔۔۔ کسی بھی غیرملکی بادشاہت, ریاست,اور نظام سے جس کا/کی میں آج تک وفادار یا شہری تھا/تھی۔۔۔ میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے قوانین اور آئین کی پاسداری کروں گا/گی اوروفاداررہوں گا/گی۔۔۔ ہراندرونی اوربیرونی دشمن کے خلاف۔۔۔ اوریہ کہ میں پوری سچائ کے ساتھہ یہ عہد نبھاؤں گا/گی۔۔۔ اوریہ کہ ملکی قوانین کے تحت جب ضرورت پڑی,  اسلحہ رکھہ سکتا/سکتی ہوں, مسلح افواج کا غیر مسلح کاموں میں ساتھہ دوں گا/گی, شہری ہدایات کے مطابق قومی سطح کے کام کروں گا/گی۔۔۔۔ اورمیں یہ ذمہ داری آزادی کے ساتھہ, بغیر کسی ذہنی دباؤ یا غفلت اوربدل جانے کی نیت کے قبول کرتا/کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتنے سخت حلف کے بعد کسی شخص کوامریکہ کے نظام کو بنانے یعنی ووٹ ڈالنے کا حق مل جاتا ہے۔۔۔ اس حلف کے بغیر وہ شخص روٹی,  کپڑا, مکان, گھومنا پھرنا, تعلیم حاصل کرنا, شادی کرنا, مطلب یہ کہ عام زندگی کے سارے کام سر انجام دے سکتا ہے۔۔۔ لیکن اس نظام کے تحت جو وہاں کے وفادار شہریوں نے حق رائے دہی کے بعد مل کر بنایا ہے۔۔۔
پاکستان میں ووٹ ڈالنے یعنی موجودہ نظام کو چلانے یا بدلنے کے لئےاپنا حق استعمال کرنے کی شرط اٹھارہ سال کا ہونے کی ہے۔۔۔ جسکا نشان قومی شناختی کارڈ ہے۔۔۔ غیر ملکی یہاں کی شہریت کیسے حاصل کرسکتے ہیں, اور انکے لئے ووٹ ڈالنے کی کیا شرائط ہیں,یہ چیزیں کالج سلیبس کا حصہ ہونی چاہئیں۔۔۔ ساتھہ ہی ہمارا حلف نامہ۔۔۔

بات ہو رہی تھی مہاجر کی۔۔۔ پتہ یہ چلا کہ مہاجر ہونا ایک عارضی حالت ہوتی ہے, چاہے کچھہ دنوں یامہینوں کے لئے ہو یاکئی سالوں کے لئے۔۔۔ کوئی بھی ملک انسانی بنیادوں پر مہاجروں کو روٹی, کپڑا, مکان اور سیر سپاٹے کی اجازت تو دے سکتا ہے, ان کوکمانے کی اجازت دے کران سے ٹیکس وصول کرسکتا ہے۔۔۔ لیکن ان سے وفاداری کاحف لئے بغیرانکو نظام ادل بدل کرنے کی اجازت  نہیں دیتا۔۔۔
 
ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ جیسی ایک عظیم ہجرت بر صغیر کے مسلمانوں نے بھی کی۔۔۔ 1947میں لاکھوں لوگ بھارت سے پاکستان آئے۔۔۔ بہت سے لوگ ہجرت کے دوران سفر مارے گئے۔۔۔ جو پاکستان پہنچ گئے وہ واپس جانے کے لئے نہیں آئے تھے اس لئے وہ یہاں رہنے والوں کی طرح پاکستانی شہری ہوئے۔۔۔
لیکن الله جانے وہ کون سی وجوہات تھیں کہ بہت سے لوگ خود کو سالوں مہاجر کہلواتے رہے۔۔۔ کیا ان کا واپس بھارت جانے کا ارادہ تھا یا پاکستان کو مسافر خانہ سمجھہ کر رہنا تھا کہ جب موقع لگے کہیں اور چلے جائیں گے۔۔۔
اگر ایسا تھا تو ہجرت کے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق انھیں پاکستانی نظام یا لوگوں کی شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں۔۔۔ ہاں یہاں رہنے کاحق ضرور تھا, لیکن اگر وہ یہاں اپنے قدم نہ جما سکے تو کسی کا کیا قصور۔۔۔
اس سے بڑا ظلم انسان اپنےاوپر کیا کرسکتا ہے کہ قانونی طور پر کسی ملک کا شہری ہوتے ہوئے بھی نفسیاتی طورپر خود کو مہاجر سمجھے۔۔۔  بھلا ایسا شخص دوسروں کے ساتھہ مل کر کیاکسی معاشرے کی تعمیر میں حصہ لے سکتا ہے۔۔۔
اسی طرح اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو کسی قوم کےبہت سے شہریوں کو مہاجر ہونے کا احساس دلا دلا کر ان کو بے سکون رکھے۔۔۔ انکے قدم جمانے کے بجائے اکھاڑنے کا سبب بنے۔۔۔ انکوماضی کی قومیت کا احساس دلا کرباقی لوگوں سے الگ ہونے کا احساس دلائے۔۔۔ اور اس طرح تفرقے اور تعصب پھیلانے کاسبب بنے۔۔۔
کیا دنیا کا کوئی بھی ملک ایسے شخص کو لیڈرشپ کی اجازت دیگا۔۔۔

ایک مسلمان کے لئے پوری دنیا الله کی سلطنت ہوتی ہے اور وہ خود خدا کا نمائندہ ہوتا ہے۔۔۔ جس ملک میں رہے قوانین کی پاسداری اس پر لازم ہوتی ہے اور اپنے ایمان کی حفاظت فرض۔۔۔ایک جگہ کواچھا کہنے یا اپنی شہریت بدلنے کے عمل کو  جسٹفائے کرنے کے لئے اپنے وطن کو بدنام کرنا کم از کم کسی مسلمان کا طرز عمل تو نہیں ہوسکتا۔۔۔

ماضی میں سینکڑوں بلکہ لاکھوں کڑوڑوں مسلمانوں نے اپنے وطن سے دوسرے ملکوں کا سفر کیا۔۔۔  مگرجن کا مقصد سائنسی علوم حاصل کرنا یا حدیثوں کا علم حاصل کرنا یا  تحقیق, تجارت, سیاحت, مظلوموں کی مدد, انسانیت کی خدمت وغیرہ تھا۔۔۔ انھیں اپنے مقاصد کے لئے بھوک پیاسا بھی رہنا پڑا, قیدبھی اٹھانی پڑی, خوف اور دشمنیوں کابھی سامنا کرنا پڑا۔۔۔ ان میں سے بہت سوں کے نام تاریخ کی کتابوں میں مختلف کامیابیوں کے حوالے سے درج ہیں۔۔۔ ان کا یہ سفر ہجرت میں بھی شمار نہیں ہوتا۔۔۔  جنھوں نے محض ہجرت کی پیٹ بھرنے, تن ڈھانپنے اور سر پر چھت بنانے کے لئے, انکے نام تو انکی اپنی نسلوں کو بھی یاد نہیں۔۔۔
عام حالات میں ہجرت کے لئے شریعت نے کچھہ شرائط مقرر کیں ہیں۔۔۔ مثلا تجارت, جہاد, شادی, تبلیغ۔۔۔ لیکن یہ ایک عارضی رخصت ہے نہ کہ مستقل اجازت۔۔۔

خیر اس پرمزیداور حتمی روشنی تو علماء دین ہی ڈال سکتے ہیں۔۔۔ میں نے تو صرف اپناحق اظہاررائے استعمال کیا ہے۔۔۔

I Love Brooms

Making broom is a cottage industry in Pakistan.  Poor families are provided with big, dry date-palm leaves or stalks of different plants.  They shred off the dried part with their hands and gather sticks or stiff fibre of same size to make a bundle of broom.  The sticks on the thicker end are tied together with a wide rubber band or a metal wire.

It is used for sweeping dust and litter, for removing spider webs, for killing lizards, cockroaches and centipedes.  It can be a good weapon against thieves and intruders.

For me, broom is a symbol of unity, discipline and cleanliness.  It is a gift of plants that tells us the story of courage.  It is a tool that teaches us how to serve humans with employment opportunities.  It is going to be my political mark for election if I ever think of participating in electoral campaign.  In my government, Pakistan will be the biggest broom supplier in the world.  The entire broom industry will be given a tax relief if they promise to grow five trees per family every year.  Any publisher printing books on the advantages of brooms will be tax exempted for life time.

تنکا تنکا جوڑ کر جھاڑو بنتی ہے۔۔۔ درختوں کے پتوں کے خشک ہونےپر رہ جانے والے تنکے, جو اپنی قسمت پر رونے اور خاک میں بلاوجہ مٹنےکے بجائے, اتحاد اور تنظیم کی علامت بن کر ماحولیات کی پاکیزگی میں حصہ لینا شروع کردیتے ہیں۔۔۔ جھاڑو بنانے اوربیچنے والوں کے لئے روزگار کاسبب بنتے ہیں۔۔۔ ویسے تو اسے چھپکلی, جھنیگراوردوسرے جانور مارنے کے کام لایا جاتاہے۔۔۔ مکڑیوں کے جالے صفائی کئے جاتے ہیں۔۔۔ اس سے چوروں کو مار جاسکتا ہے۔۔۔ سیاستدانوں کو سونگھا کر بے ہوش کیا جاسکتاہے۔۔۔ جھاڑو ٹریفک کے مسائل کو حل کرنے میں مدگارر ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ جھاڑو کے پیچھے ایک اضافی ڈنڈی لگا کراور کچھہ عملیات پڑھ کر اسے سواری کے کام بھی لایا جاسکتا ہے۔۔۔ اگر وصی شاہ کو جھاڑو کی اہمیت کا اندازہ ہوتاتو وہ کہتے, کاش میں تیرے حسیں ہاتھہ کی جھاڑو ہوتا۔۔۔
قسم سے اگر کبھی میں نے الیکشن لڑا تو میرا انتخابی نشان ہو گا جھاڑو۔۔۔ ہروقت میرے ساتھہ رہے گی, آگے سے صفائی کے لئے, پیچھے سے پٹائی کے لئے۔۔۔ جس کو تھوکتا دیکھا اور دی گھما کے جھاڑو۔۔۔ میری پاڑٹی کا نام ہوگا آل پاکستان سویپنگ لیگ۔۔۔ نعرہ ہوگا, جھاڑو اپنائیے, ماحول بچائیے, صحت بنائیے۔۔۔ ایجنڈا ہوگا,
کتنی پاکیزہ ہے اعمال میں جھاڑو میری, کتنی معصوم ہے کردار میں جھاڑو میری,
اتحاد اور ہے تنظیم علامت اسکی, ایسی جھاڑو کہ جسے دیکھہ کے گھبرائیں یہود,
فوجی بارود سے بھی زیادہ ہو طاقت جسکی, چار تنکوں کی ضرب پڑتےہی مرجائیں ہنود,
جس کے بھی سرپہ پڑے یاد دلا دے اسکو, عہد پارینہ کے بربادئ عاد اور ثمود,
جب چلے سڑکوں پہ آثار مٹادے سارے, کبھی ہوتاتھا یہاں خاک پہ کچرے کا جمود,
ایک تاریخ رقم کرتی ہےجھاڑو میری, دل و دیماغ صفا کرتی ہے جھاڑو میری۔۔۔

عملیات پر یاد آیا کہ خانقاہ جاناتھا۔۔۔ مفتی صاحب کہتے ہیں کہ یہ جن آہستہ ہستہ جائے گا۔۔۔ جسطرح جسمانی بیماریاں مختلف قسم کی ہوتی ہیں اسی طرح روحانی بیماریاں ہوتی ہیں۔۔۔ بعض تھوڑے سے علاج سے ختم ہوجاتی ہیں اور بعض کینسر, شوگراوردل کی بیماریوں کی طرح ہوتی ہیں انکا ہمیشہ علاج چلتاہے۔۔۔ عام لوگ توعام لوگ, عامل بھی ڈرتے ہیں مجھہ سے۔۔۔ طبیبہ کہتی ہیں بہت خطرناک ہے, انکے تو پسینے چھوٹ گئے تھے, بے چاری ایسی بھاگیں۔۔۔ ابراہیم صاحب اسی کا علاج کرتے کرتےدوسری دنیا منتقل ہوگئے۔۔۔ امی کہتی ہیں میں خود سب سے بڑا جن ہوں اور یہ سب میرے دماغ کا فتور ہے۔۔۔ جبکہ میرا کہنا ہے کہ مجھہ سے بھی بڑے بڑے جن موجود ہیں۔۔۔ میں خود ان سے ڈرتی ہوں۔۔۔

Old Age

I am an elderly person from the next few decades (if I get to survive).   Next few decades which I am not very much hopeful regarding my old age.  Old age, when I will not have the same stamina as I have now and my physical organs will not function in the same proper way.  I won’t be able to sustain my provisions on my own.

Where will I live then?  Who will provide me with food and clothing?  Who will be there to take care of my health?  It will be useless to ask these questions to the future youth because by the time they will come up with an idea, I will be resting in peace for hundred years.

One solution that the majority has worked upon is to work hard, earn money until there are chances and then settle down in another country where they have made some system for elderly people.  Many celebrities like Uzma Gilani, Munni Begum, Majid Jahangir, Umm-e-Habibah, Zohra Noorani, Tehseen Javed, Sajjad Ali and families of scholars and middle class people have applied this strategy to turn their olden era into a golden era.  They are nice people and have right to live wherever they want to whatever the way they want.  May be this is a part of globalization that you grow up with thoughts of taking care of yourself and your family, be nice to everyone and live your own life.  For most people now “how to live?” matters more than “where to live?”.  The thing is that I cannot expect anything from them like helping in building this nation, except for crumbs of donation time-to-time or a statement “I miss Pakistan”.

Still some ladies (I call them great), the legends of our time, like Bano Qudsia, Bajya and Bilqees Edhi preferred to stay.  May be because their names begin with letter ‘B’, who knows.  All I want to know is that why did these ladies prefer “where to live” over “how to live”?

I’m not a celebrity.  I’m just a common person.  Everyday I notice the increase in number of old women beggars.  In last eight or nine years, I even saw many of them sleeping on sidewalks along with their grandchildren.  I wouldn’t say that they all have come from the interior of Sindh or Punjab or Baluchistan or Khyber-Pakhtunkhwa (jitnay mushkil khud hain utna hi mushkil naam rakh diya soobay ka).  Many of  them belong to Karachi.

I remember few families from my childhood.  They had migrated from India in search of a peaceful land.  They sacrificed their loved ones, lost their properties, even their basic belongings.  There was one family whose head of the house was a sixty five year old lady and was obviously an illiterate person.  She had a son who was killed during the riots of sixties and left few children including other family kids whose parents were lost during partition.  Then there was another family of similar kind.  The seventy year old lady was responsible for her eight little grandchildren and a mentally ill daughter age 55.  Sometimes they had nothing to eat for days but one time meal that was a ‘roti’ , no curry to eat with.  Neighbours provided them with some good food but that was not on the regular basis.  They still needed clothes, education, somebody to supervise them.  Both ladies became nani’s friend.  They were from noble families in India.  I am sure there were thousands of stories like this.

The ladies must have died soon as they were already feeble and ill.  But I don’t know what their grandchildren had gone through.  If they are alive, they must be my age now or may be a little younger or older.  May be few of them had found a good support later on which rarely happens.  But what about the rest.

There was no system at that time.  Not even the concept of having a system.  Children from that time are now middle-aged and have grown as unwanted beings while the children of this time are growing as wild beings.  God knows what kind of society we’re going to turn into next twenty or thirty years.

Edhi seems to be the only refuge for elderly people especially women.  There are few adult homes but they are mostly for men to live till their death and they are expensive too.

I have no hope at all from our political parties and religious groups for next hundred years.  They will keep growing fear and hatred in people’s mind against each other.  Only if common people support each other and help each other about solving issues of common people like them.

Wisdom of Mosa/Moses

(Pharaoh) said: “Did we not cherish you as a child among us, and did you not stay in our midst many years of your life?… “And you did a deed of yours which (you know) you did, and you are an ungrateful (wretch)!”… Moses said: “I did it then, when I was in error”… “So I fled from you (all) when I feared you; but my Lord has (since) invested me with judgment (and wisdom) and appointed me as one of the apostles… “And this is the favour with which you did reproach me,- that you had enslaved the Children of Israel!”…….Shura Shu’ara/The Poets, 18-22

وہ (فرعون) کہنے لگا کہ کیا نہیں پالاتھا ہم نے تجھے جبکہ تو ایک چھوٹا سا بچہ تھا اوررہا  تھا تو ہمارے ہاں عمر کے کئی سال۔۔۔اور کی تھی تو نے وہ حرکت جو کی تھی تو نے اور تو بڑا ہی ناشکراہے۔۔۔ کہا (موسی نے) کہ کی تھی میں نے وہ حرکت اس وقت جبکہ تھا میں نادان۔۔۔ پھر بھاگ گیا میں تمھارے پاس سے جب مجھے ڈر ہوا تم سے, پھر عطا کی میرے رب نے حکمت اور شامل فرمایا مجھے رسولوں میں۔۔۔اور جواحسان جتارہا ہےتو مجھہ پر, اسکی حقیقت یہ ہے کہ تو نے غلام بنا رکھا ہے بنی اسرائیل کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سورہ الشعراء

پتہ نہیں مغرب فرعون کی طرح احسانات جتاتا ہے کہ نہیں۔۔۔ اگر احسانات جتاتا ہے تو اسکا جواب بھی موسی علیہ السلام کی طرح سادہ اورلاجواب کردینے والا ہے۔۔۔ مغربی ممالک نے جو فساد مسلمانوں کے خلاف برپا کیا ہوا ہے, آئی ایم ایف کے قرضے, قدرتی وسائل پر قبضہ, غلام ذہنیت جاگیرداروں, سرمایہ داروں, سیاستدانوں اورمولویوں کی حکمرانی۔۔۔ دنیا میں بھوک, افلاس, ظلم, جرائم, بدامنی اسی کا نتیجہ ہیں۔۔۔ اور ان سب کے اثرات دو طرح ظاہر ہوتے ہیں۔۔۔ یا بغاوت ہوتی ہے یا انقلاب آتا ہے۔۔۔ بغاوت مزید فساد اور خون خرابہ پیدا کرتی ہے۔۔۔ انقلاب فساد اور خون خرابہ کو ختم کرتا ہے۔۔۔

Freedom is the spirit of revolution.  ‘To know your rights’ is its content.

The ground reality for Muslims may be the most challenging in human history but that can never be negotiable to the extent of losing their spirit of freedom.  Compromise could be a strategy but is not another word for slavery.

So first I imagined that if Americans and their allies are grasshoppers and Muslim populations are ants, their verdict should be the same as of Flik and the Princes to Hopper.  The West need to kill Muslims to seize their natural resources for their comfort.  They need to diminish common Muslims so they are compelled to work for them and can generate tax money for them.  They justify their plans to western populations by creating fear and terror against Muslims.

But what if our feudal lords, politicians and elites play grasshoppers and people of Pakistan are ants, the solution is still the same.  “The ants pick the food, the ants eat them and the grasshoppers leave.”

And I loved this movie.

Sanity

“Behold, your Lord said to the angels:  ‘I will create a vicegerent on earth’.  They said, ‘will You place therein one who will make mischief therein and shed blood while we do celebrate You praises and glorify Your Holy Name’?  He said, ‘I know what you know not’.”………Surah Al-Baqarah/The Cow, 30

“Sheri Rehman, leave Pakistan, we don’t deserve sanity”…. almost were the words of a writer of a post.  I was surprised.  Our self-claimed “SANE” minority is highly concerned about politicians’ safety, praying for them, asking them to run-away????  I paused a little, calmed down myself and focused on the issue and figured out the fact.  It is mostly the one who have run-away, now suggesting the same to their beloved political figures.  Yeah, right, for them living in danger is insanity and this is what we are, the common Pakistanis, INSANE.  We should be proud of our insanity, at least I am.

Sanity in online dictionaries is defined as soundness of judgement, health of mind, the ability to predict the results of ones actions, the ability to get what you want without doing things that will ultimately get you more of what you don’t want.

Synonyms of sanity: balance, clear mind, common sense, comprehension, intelligence, normality, prudence, rationality, reason, sagacity, stability, understanding.

Sanity in Pakistan:

I don’t know when but the first time I heard this word ‘sanity’, I thought that it must have something to do with the word ‘sanitation’ and that is why we are asked to develop it as a feeling.

1) Murder of a liberal by unknown gunmen (murder later claimed by Talibans) is condemned by literates and liberals.

2) Murder of a minority member on the basis of faith/religion in any province is passionately condemned by liberals, minorities and American Officials.  And I don’t know why are Hindu, Christian or other religious based communities in Pakistan categorized as minorities while they are assured of a major support from outside at any times?  Even a pinch to them disturbs the entire west and our politicians while ignoring the massacre of Muslim population around the world.

3)  Murder of a profession-based community member (doctor, lawyer, judge, journalist, teacher etc.) is condemned by that particular community.

4) Murder of a Muslim on the basis of language is condemned provincially.

5) Murder of a political leader by unknown terrorists is violently condemned by their party workers and voters.

6) Murder of an official is condemned by liberals.

7) Murder of a Muslim civilian by American CIA agent is condemned by the Muslim civilians and religious groups.  Liberals and politicians mostly stay quiet or try to be diplomatic, government officials become active regarding fulfilling their jobs to protect American or Western interests.  Religious based minorities don’t say a word about it.

8 ) Murder of an Urdu speaking is ignored by everyone.

9) Murder of a religious person is condemned violently by almost all religious groups of either of the two main types; Shia and Sunni

10) Murder of a woman or a child is not a considerable incident.

The case of Asia Bibi has already claimed two lives, Salman Taseer and Shahbaz Bhatti.  Sheri Rehman is predicted to be next in line.

I don’t know how many times in my childhood, I had to repeat this sentence “phelay baat ko tolo, phir munh say bolo” or the one I read in my First Grade Urdu Book “buk buk mat ker, chup ker jaa”.  For me, this could be one true unified definition of sanity.

As for our politicians, mullahs, scholars, liberals and moderates, conservatives, minorities by faith or profession or lets say professionals, youth, women….they all talk.  They speak the words of their interest.  When they open their mouth, they totally forget that others have a voice too, may be a stronger one or vulgar one.  The one who don’t find themselves logical enough to defeat the opponent or they feel like they can’t defend themselves verbally seek refuge in the language of violence.

In our country, we don’t express our thoughts and feelings in words.  We exchange threats and allegations.  We don’t verbalize the solutions but condemnation.  That is neither sanity nor humanity.

عقلمندی, دوراندیشی, حکمت, فہم, سمجھداری۔۔۔ کاش یہ ہمارے کھوئے ہوئے خزانے ہوتے۔۔۔ کم از کم ہم انھیں تلاش تو کرتے۔۔۔ لیکن ہم نے انھیں خزانہ سمجھا ہی نہیں۔۔۔ بےکار پرزے سمجھہ کرزمین میں دفن کردیا۔۔۔ اب تو بہت عرصہ ہو چکا ہے, مٹی میں مل چکی ہوں گی۔۔۔ ویسے سال میں ایک میموریل انکا بھی ہونا چاہئیے۔۔۔
دو قتل کے بعد شیری رحمان کی باری ہے۔۔۔ افسوس ہوا یہ دیکھہ کر کہ پڑھے لکھے لوگ کسطرح سیاستدانوں کو بھاگنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔۔۔ اگر دو تین چار پانچ دس بارہ قتل بھی ہو گئے تو کیا ہے۔۔۔ ہزاروں کی تعداد میں عوام بھی تو مرتے ہیں۔۔۔ دادا صحیح کہتے تھے, فرنگی تعلیم بزدلی سکھاتی ہے۔۔۔

Was Prophet (pbuh) a failure?

Thirteen years of revolutionary period of Makkah under the leadership of Prophet Muhammad (pbuh)  (13 to 1 B.H i.e.before Hijrah or 610-622 A.D)……. 10 years of first Islamic state by Prophet Muhammad (bpuh) under the divine guidance (1-10 A.H./622-632 A.D)……. and the thirty years of true Islamic caliphate by the four distinguished companions (10-40 A.H/ 632-661 A.D), which ended with the martyrdom of Ali ibn Abi Talib (may Allah be pleased with him)…. The total time period is summed up to forty years (fifty three years including 13 years of Makkan period).

These forty or let’s say fifty three years of early Islamic regime are cited by historians, Muslims and non-Muslims, as the most distinguished and the most brighten part of the many-millennium old human history.  Not in terms of forming and establishing a dynamic political government in such a short period but it’s extension to next thirty years is an ideal for any nation.  One unified government where peace and justice was guaranteed to common people without any distinction of elite and lower-classes.  Everyone was treated equally and had equal opportunity for progress.

However, some people may have a doubt that if that era was so incomparable and superlative in every aspect, why didn’t it last forever, why the system failed to the extent that it produced a massacre like Karbala in next twenty years?  Others blame the companions for being formidable and causing downfall.

To find a cure for these doubts, I referred to Qura’n and found this precious verse in Surah Al-Baqarah (256-257 right after Ayatul-Kursi), “Let there be no compulsion in religion; Truth stands out clear from Error:  whoever rejects evil and believes in Allah has grasped the most trustworthy hand-hold, that never breaks, and Allah hears and knows all things…Allah is the Protector of those who have faith; from the depths of darkness He will lead them forth into light.  Of those who reject faith, the patrons are the evil ones; from light, they will be led forth into the depths of darkness.  They will be companions of the fire, to dwell therein (Forever).”

Everything that Allah has created glorifies Him and obeys Him as according to their written destiny.  Only human beings and Genies are given freedom to live according to their choices.  No compulsion for them.  God will judge them on the basis of how or what kind of life they chose to live.

These two species have an instinct of living free of any control, want to do whatever they want.  This lust of freedom leads them to carelessness, selfishness, corruption, injustice, exploitation and wars.  That finally divides people into two categories; the oppressed and the oppressors.

God sent His apostles to save nations from the evils of this division, with a clear guideline that could help in reconciling matters in better and peaceful ways.  Each prophet was a role-model for their fellow-men.  Nations were given opportunity to follow their best men but unfortunately, they rejected them.  They followed the course of history in the same manner, i.e. first to live their own way, create a hell out of their worldly desires, wait for a messiah for correction, experience peace and justice for a little while, get sick and tired of pure and simple guideline, deny it and walk back to the previous track to create a hell even worse.

None of the prophets including our Prophet Muhammad (pbuh) promised that they are there to impose the laws, to force people to follow their path.   No matter how simple and the best the system was, they never claimed it to be long lasting.  Their purpose was to set an example if people want to succeed.

Those forty or fifty three years of early Islamic history was the final guideline for the people of the world, if they want to adopt it as their life-style without any compulsion.  The system wasn’t a failure one.  It was the people who failed to grasp the idea and proved themselves for not being worthy of leading it.  They repeated the history in the best way to suffer the worst of the consequences.  The system is promised to bring peace and prosperity.  Otherwise, as Qur’an says, “Let there be no compulsion in religion; Truth stands out clear from Error”.


Chand Baluchistan

Three times since last year, I wrote a draft under this title “Chand Baluchistan” and deleted it.  I don’t know why I did it, may be out of fear or may be because it’s not a popular issue among readers.  Baji was in 10th Grade when she got a chance to visit Quetta with my aunt’s family.  For years, she talked about the natural beauty she explored and the people there, how simple they were.  I also wanted to go there, never got an opportunity except for an online exploration.  But I always loved the lyrics ‘suraj hay Sarhad ki zameen, chand Baluchistan hay” and still sing them.

Seems like all human beings have been traveling throughout human history.  Some as rulers invading territories to extend their kingdoms.  Others migrated to escape tyrants and in search of peace.  Some people claim ownership to a place because they are born there.  Others disown it for the same reason and choose to flee to live with other nations.

The word Balochistan is derived from the Persian Language and was originally termed to mean “ignorant”.  (*I took it as Bedouins or Baddoos in Arabs were considered the ignorant or uncivilized wanderers).  Balochistan in Pashto is known as Godar.  The Baloch Tribes claim themselves to have come from Zagros Mountains, Syria, Anatolia, Iran in the First Millennium CE.  Some connect their origins to Medes and Kurds.  Many of them believe that they were originally Semitic.  Great tribal wars have been the part of Baluchistan’s history and the life-style of Baloch warriors as well.  The worst aspect of tribal wars is that they gradually lose all the economic advantages that they could avail by developing diplomatic terms with their neighbours and are finally left with no choice but to compromise with superior powers in order to continue their “never-ending enmities”.

Baluchistan includes part of southeastern Iran, western Pakistan, and southwestern Afghanistan.  Baluchistan in Pakistan has borders with Iran in the west, Afghanistan and Khyber Pakhtunkhwa in the north, Punjab and Sindh in the east and Arabian Sea to the south.

Time-line Baluchistan:

1) 7000-6000 BC – Hunting camps and lithic scatters

2) 6500 BC – Mehrgarh inhabitants in the history of Indus Valley Civilization

3) 4500 BC – Farming communities spread to parts of Balochistan and Sindh

4)  2500 BC – Became part of Harappan culture providing key resources to the expansive settlements fo the Indus river basin to the east.

5)  2000 BC – Became part of Achaemenid, Seleucid, Parthian, and Sassanid empires.

6) 650 BC – the part of region was ruled by Deoikes, a Persian King who said to have defeated by Alexander

7) 1st-3rd Century – Paratarajas/Parata Kings of Indo-Scythian and India-Parthian dynasty

8 ) 6th Century – The Baluch tribes were engaged in fight against Khosroes I Anoshervan, the Persian King.  They moved to the southeastern region which is now known as Baluchistan.  The immigrants joined the locals of Makkran, Sistan and Barahui and to become one strong force to fight against another Iranian group known as Pashtuns.

9) 7th Century – Arab armies controlled the area and many Balouch tribes embraced Islam.

10) 1000 AD – The area is named ‘Baluchistan’ after the numerous Baloch tribes, Iranian peoples who moved into the area from the west.  I couldn’t find the detail if the natives were really courteous to let these immigrants abide there.  Later on, wherever they originated from, they decided to call it their homeland.

11) 15th Century – Mir Chakar Khan Rind founded the Kingdom of Baluchistan.  He defeated Lasharis (another Baluchi tribe) after thirty years of bloody civil war and was engaged in another fight against Afghan king Sher Shah Suri.  Mir Chakar Khan Rind lost the battle, migrated to Punjab and settled there in Sahiwal District (1518).  He tried to establish his kingdom there but was resisted by Persian Emperors.  Years later, he was offered by Sher Shah Suri to shake hands but he refused and instead join the Mughal Armies of Empror Humayun under the command of his son, Mir Shahdad Khan (1555).  He was rewarded a vast land in Punjab by the emperor.

12) 17th Century – Hamedzai Khan from Afghanistan ruled the area.

13) 19th Century – Khan of Kalat signed a treaty to bring Kharan, Makran and Lasbela (three main territories) under British Empire.  Western Baluchistan was conquered by Iran and they fix the boundaries in1872.

14) 20th Century – Bahram Khan controlled Baluch lands and (1906) British Empire recognized him as the King of Baluchistan.  His nephew Mir Dost Muhammad Khan continued till 1928 when Reza Shah raided from Persia and defeated Baluchis.  Mir Dost Muhammad Khan was executed in Tehran prison.

16) 1958 – Gawadar was the part of Oman and it was sold to Pakistan in 1958 and was made part of Baluchistan in 1977 as Gawadar District.  The natives of Gawadar were influenced with Arabs rather than Baluchis and Pashtoons.  Oman has offered a billion dollar aid to rebuild infrastructure in Baluchistan.

17) 1972 – The provincial assembly of Baluchistan was constituted and held its first assembly session the same year.

This is very unfortunate and sad indeed that while millions of people show solidarity to their fellow-citizens, are sincere to work for their betterment so they can grow as one strong nation… knowing that each and every human being is originated from Adam and that everything belongs to the Creator… others instigated by their feudal lords and chiefs, pledge to safeguard the honour of their tribes, families and dynasties thus provide fuel for enmity and never-ending fights…

http://www.answers.com/topic/baluchistan

http://horsesandswords.blogspot.com/2006/03/administrative-control-over.html

The Slave Generation

Then We sent Moses and his brother Aaron, with Our Signs and authority manifest, To Pharaoh and his Chiefs: But these behaved insolently: they were an arrogant people…They said: “Shall we believe in two men like ourselves? And their people are subject to us!”…So they accused them of falsehood, and they became of those who were destroyed”….Surah Al-Mu’minoon/The Believers 45-48

“and they said, “What is the matter with this (noble) messenger, that he eats food and walks in the markets?  Why was not an angel sent down along with him, to give warning along with him?”…or that he should have obtained a hidden treasure, or should have had a garden from which to eat” and the unjust said, “you do not follow but a man under a magic spell”…Surah Al-Furqan/The Criterion, The Standard, 7/8

“They say: “We shall not believe in thee, until you cause a spring to gush forth for us from the earth… Or (until) you have a garden of date trees and vines, and cause rivers to gush forth in their midst, carrying abundant water; …Or you cause the sky to fall in pieces, as you say (will happen), against us; or you bring Allah and the angels before (us) face to face:…Or you have a house adorned with gold, or you mount a ladder right into the skies. No, we shall not even believe in thy mounting until you send down to us a book that we could read.” Say: “Glory to my Lord! Am I aught but a man,- an apostle?”… What kept men back from belief when Guidance came to them, was nothing but this: they said, “Has Allah sent a man (like us) to be (His) Messenger”… Say, “If there were settled, on earth, angels walking about in peace and quiet, We should certainly have sent them down from the heavens an angel for an apostle”……Surah Al-Isra/The Night Journey, 90-95

This is how people in the history extended the period of their slavery and couldn’t get rid of their life miseries.  They just can’t believe in things beyond their five senses.  Looks like they never wanted to learn a lesson, they never desired for any guidance.  They just wished to follow a person who can show that somehow he is a better person, he can perform something that they are unable or are lazy to do…and that he provides them a quick solution according to their likes and dislikes…and that he doesn’t interfere in the daily course of life.

This secret of motivating common man towards slavery is not a secret anymore.  Unfortunately, in last several decades, it has been revealed to common people  and now a vast majority of the human population has indulged into this competition.  How can they become the man/woman of the moment, twist people on their fingers and be called successful.  Don’t give them a time to think about the purpose of their existence.  Usurp their rights to become fan of the Prophets.   Break their bonding with God.  Scholars, politicians, performers of different fields…they all claim to solve problems…lol, by their self-fabricated ideologies and thoughts…and people believe in them… then they blame them….they try to get rid.   In the mean time, another performer takes over and the game continues.

ہر دور کے عام آدمی کا مسئلہ رہا ہےغلامانہ ذہنیت کہ وہ بادشاہ یا حکمران یا رسول, پیغمبر, ولی یا سجادہ نشینیوں کے لئے یا کسی کے بھی پیروکار یا مرشد بننے کے لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ شخص کسی بھی لحاظ سے ان سے مختلف یا بہتر ہو۔۔۔ نسل خاندان میں, دولت میں, رتبے میں, اثر ورسوخ میں یا پھر کرامتیں معجزے دکھانے میں یا کوئی اور غیرمعمولی صلاحتیں ہوں یا عام زندگی سے ہٹ کر اسکا رویہ اور باتیں ہوں۔۔۔ اپنے روز مرہ کے معمو لات اور عقائد میں وہ کوئی تبدیلی یا تنقید گوارا نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔  پوری تاریخ میں صرف اسلام کا پچاس ساٹھہ سالہ دور ایسا گذرا جس میں معیار تقوی کا کردارتھا۔۔۔ اجنبی شخص مجمع میں یہ نہیں پہچان سکتا تھا کہ ان میں رسول کون ہیں, صحابھ کون ہیں اورعام مسلمان کون ہیں۔۔۔ بعد میں خلفاء راشدین کا بھی یہی حال تھا۔۔۔ کسی کا کوئی الگ پروٹوکول نہیں تھا۔۔۔ اور یہی امن, عدل اورخوشحالی کا راز تھا…اسکے کافی سالوں بعد شاید امریکہ اور یورپ کے لوگوں کو اس راز کا کچھہ حصہ سمجھہ آگیا۔۔۔ مذہبی پابندیوں اور حرام حلال سے ہٹ کر اسلام کے باقی میرٹ سسٹم کو انھوں نے اپنا لیا۔۔۔

بد قسمتی سے عام مسلمان زیادہ عرصے اس راز سے فائدہ نہ اٹھا سکے اور نہ ہی اس سوچ کو اپنی نسلوں میں منتقل کرسکے۔۔۔ صدیوں پرانی غلامانہ ذہنیت جسے اسلام نے ختم کیا تھاکو زندہ کربیٹھے۔۔۔  نتیجہ سامنے ہے پوری امت کا۔۔۔ صرف پاکستان پر ہی نظر ڈال لیں۔۔۔ ہرمذہبی فرقے کےعلماء, پیر و مرشد یا سجادہ نشین ایک الگ ظاہری شان کے ساتھہ نظرآئیں گے۔۔۔ اسکے ماننے والےچند گھنٹوں یا دنوں کے لئے یاکسی ضرورت کے تحت اس کی بات سنتے ضرور ہیں لیکن ان باتوں کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ نہیں بناتے۔۔۔ اوران چند گھنٹوں, دنوں یا ضرورت کے وقت پر کام آنے کی قیمت نذرانے یا تحفے کے طورپر ادا کردی جاتی ہے۔۔۔ ان کرتا دھرتاؤں کو بھی شاید یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عام لوگوں سے اس سے زیادہ تو قع نہیں رکھی جاسکتی۔۔۔ یہ بے شعور لوگ ان کی ظاہری شان اور کرامتوں کی وجہ سے تو انھیں مقدس سمجھتے ہیں۔۔۔ان کرامتوں میں سے ایک دینی کتابوں کو خود پڑھنا بھی ہے۔۔۔ یہ عام لوگ انکے ایک اشارے پر توڑ پھوڑ مچاسکتے ہیں گالیاں دے سکتے ہیں مار سکتے ہیں مر سکتے ہیں۔۔۔ لیکن کسی نظام کو شعور کے ساتھہ اپنی زندگی کا حصہ نہیں بنا سکتے۔۔۔ اور ایسا کرنے کے لئے جس لیڈرشپ, تربیت اور حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان عالموں, پیروں اور سجادہ نشینوں کی شخصیت کاحصہ نہیں۔۔۔ کاش عام آدمی اپنے عالموں, پیروں اور سجادہ نشینوں سے یہ پوچھنے کے قابل ہو جائے کہ تنگ ذہن, قوت برداشت سے عاری, مخالفوں پر طنز کےتیر چلانے والے,انکو حقیر کرنے والے, دلوں میں نفرت پیدا کرنے والے, سخت لہجوں میں چیخ چیخ کروعظ وبیان کرنے والے, علم کو محدود کرنے والے اسلام کے علمبردار, رسول کی شفاعت اور جنت کے حقدار کیسے ہو سکتے ہیں۔۔۔ اسلام تو صلح وصفائی, درگذر اوراخوت کی راہ دکھاتا ہے۔۔۔ لیکن ہمارے ہاں عالموں, پیروں اور سجادہ نشینوں کو خدا سمجھا جاتا ہے کہ ان سے سوال کرنا گناہ, انکا احتساب کفر, انکی تصحیح کرنا لعنت اور انکی جاری کردہ کتابوں کے علاوہ پڑھنا یا کسی دوسرے کو سننا فسق ہے۔۔۔۔۔۔
میرے حساب سے انکی سب سے بڑی کرامت اور خصوصیت یہ ہے کہ انھیں عام آدمی کو عام اور غلام رکھنے کا فن آتا ہے۔۔۔

ہمارے سیاستدان بھی اس فن کے ماہر ہیں۔۔۔ جاگیرداروں اور سرمایہ کاروں کی سب سے بڑی کرامت انکی دولت اثر ورسوخ ہیں لہذا وہ مطمئن۔۔۔ ملکوں, شہروں کی تقسیم کی جو بھی منصوبہ بندی باہر سے آئے اس پر انھیں کیا فکر۔۔۔ انکی ایک آواز پر مرنے کے لئے بیوقوف عوام موجود ہوتی ہے۔۔۔ لیکن جو ان میں سے پڑھ لکھہ کر کچھہ ڈگریاں لیکر مولویوں, جاگیرداروں اور سرمایہ کاروں کی غلامی سے آزاد ہونے کی کوشش کریں تو انکو واپس کنوئیں میں بندکرنےکے لئے الطاف حسین جیسے معجزات دکھانے والے موجود ہوتے ہیں۔۔۔ پتوں اور دیواروں پر انکی شبیھ اتررہی ہیں۔۔۔ اپنے چیلوں کو کھانے کی آفر کرنا فرض نہیں کرامت ہے انکی۔۔۔
اور پھر بھی بچ گئے تو  غفلت کی طرف لے جانے والا ایک  اور راستہ کھلاہے۔۔۔ فنونی لطیفو ں کی پے در پےپرفامنس,زندگی اور خوشیوں کے بارے میں میٹھے میٹھے چکنے چپڑے  فلسفے۔۔۔
کتنی عجیب سی بات ہے۔۔۔ علماءقتل کئے جائیں تو شہید, سیاستدان قتل کئے جائیں تو شہید, ان دونوں کے نظریات پر جان دینے والے کارکن شہید۔۔۔ فنونی لطیفوں کا فین بننا انسانیت اور نیکی کی نشانی, عین عبادت۔۔۔ اپنی اولاد اور اپنے نام پہ جائیدادیں بنانا فریضہ اول۔۔۔ لیکن الله اور اسکے رسول کے لئے یہی سب کیا جائے تو انتہا پسندی۔۔۔ مجھے بتاتو سہی اور کافری کیا ہے۔۔۔۔
لیکن کیاکیا جائے۔۔۔ عوام اسی ہلے گلے اور تماشوں کے عادی رہنا چاہتے ہیں۔۔۔ کسی ان دیکھے رب کی غلامی کا فلسفہ عام آدمی کے لئے ہضم کرنا مشکل ہوتاہے۔۔۔ شاید عام انسان براہ راست خدا سے تعلق قائم کرنابھی نہیں چاہتا۔۔۔

Changing The Tide

Same is the case with Pakistanis or even worse.

1) We tell the world who we are not.  We are not terrorists.  We don’t try to tell the world who we are.  If we think that we were chosen over previous Muslim ummahs, why is that so?  Totally unable to define ourselves.

2) Our Islamic identity does not stop us from patriotism, from progress, from keep good relations with other nations.  We need to stop the false propaganda about Islam, about Pakistan, about our founders (Allama Iqbal and Quaid-e-Azam), about stability of Pakistan, about Pakistanis.

3) Pakistani mullahs, scholars and religious leaders don’t need to go to America in order to preach Islam.  American reverts are better Muslims and they are doing their job well, as Muslims and as Americans.  We can’t help them any better, except by supporting good voices from there for the sake of peace in Pakistan and off course for global peace.

Theory of an Islamic State – 2

Political Science – B.A. Part I

An Islamic state  is a system of government which is based upon the principles of Sharia’ set by Prophet Muhammad (peace be upon him).  The first Islamic state was established in Medinah in 622 A.H by the Prophet himself as he migrated from Makkah to Medinah and all the residents and migrants mutually accepted him as their ruler.

Muslims believe in Prophet Muhammad (pbuh) as the final prophet of God, after his demise, his companions continued the system as his followers and  the Islamic state got the title of caliphate.  So caliphate is an institution in which a Muslim personality of high profile rules according to Qur’an and sunnah as the follower of Prophet Muhammad (peace be upon him).  The caliphate is the symbol of the unity of Muslim nations around the world.  The period of 632 -661 A.H was ruled by Abu Bakr, Umar ibn Al-Khattab, Uthman ibn Affan and Ali ibn Abi Talib (may Allah be pleased with them all) respectively.  This period is called Khilafat-e-Rashida.

Later on, from 661- 1346 A.H (March 3, 1924), different Muslim dynasties ruled over Muslim territories.  Sultan Abdul Majid son of Sultan Abdul Aziz from Ottoman Dynasty was the last caliph of Islamic caliphate.  His rule ended on March 3, 1924 when a Turk general Mustafa Kemal Ata-Turk abolished the caliphate and became the first Turk president.

A very few Muslim individuals or groups in different countries since then have proclaimed to be the caliphs for the sake of revival of Islamic caliphate but couldn’t succeed.  However, the global domination of Islam or a global Islamic caliphate is already prophesied by the Prophet(pbuh).

The nature of Islamic state:

“The sovereignty of God, the message conveyed by all the prophets, is the foundation of the system.  Legislation contained in the Qur’an becomes the basic law of the state.  This puts the fundamental law of the society beyond the lobbying power of particular interest groups and ensures that legislation is just and equitable.  The government must make decisions on the basis of what God has revealed.  If it does not, according to the Qur’an it is not Islamic, for those who make decisions on other than what God has revealed are unbelievers (Surah Al-Maida 44).  In cases not covered by revelation, decisions based on Islamic principles ar left to the Mujtahids, Islamic experts on legal interpretation.  The Muslims can make laws or regulations dealing with such matters, but these do not have the same permanence as Qur’anic injunctions” taken from http://www.islamfortoday.com/cleland04.htm

The concept of an Islamic state, is of a territory that is governed according to the will of Almighty God and where people regardless of any differences live in a peaceful environment and enjoy their rights as per granted by Allah (SWT).  Following are the elements/features/characteristics/principles of an Islamic state.

Behold, thy Lord said to the angels: “I will create a vicegerent on earth.”…Surah Al-Baqarah 30

In general, all human beings are Allah’s viceroy, thus they all responsible to establish a system under His divine laws.  

1. Sovereignty of Allah –  Believing in Allah (SWT) as the Supreme Authority in all matters is the foundation of an Islamic state.  Allah is self-sufficient and His being and work is free from all faults.  Everything and everyone depends upon Him for their existence and sustenance.   His divine law should be the law of His land like it is in the the rest of the universe.  So basically an Islamic state is a divine state where Allah (SWT) is regarded as the only Sovereignty over all.

“Whatever is in the heavens and on earth,- let it declare the Praises and Glory of Allah for He is the Exalted in Might, the Wise… To Him belongs the dominion of the heavens and the earth: It is He Who gives Life and Death; and He has Power over all things… He is the First and the Last, the Evident and the Immanent: and He has full knowledge of all things...He it is Who created the heavens and the earth in Six Days, and is moreover firmly established on the Throne (of Authority). He knows what enters within the earth and what comes forth out of it, what comes down from heaven and what mounts up to it. And He is with you wheresoever ye may be. And Allah sees well all that ye do… To Him belongs the dominion of the heavens and the earth: and all affairs are referred back to Allah…He merges Night into Day, and He merges Day into Night; and He has full knowledge of the secrets of (all) hearts”…Surah Al-Hadeed 1-6

2. Khalifah/Caliph – A form of government which is founded upon Islamic Sharia’ is called khilafah/caliphate.   The head of the state/ruler/commander is called “khalifa/caliph, ameerul mu’minee or imam”.  He must be the true follower of Prophet Muhammad (S.A.W).  A wise, pious man who could be trusted for guarding the Islamic constitution (divine laws) and ensures it’s imposition.  He is also the symbol of Muslim’s unity and brotherhood.  He can be held accountable by the judiciary, just like an ordinary person, if found guilty of error/crime.

3.  Consultation (Shura) – An Islamic state is not a dictatorial kind of government.   It is a system where all state and public affairs are handled and accomplished by the mutual consultation of  the wise and educated representatives of people.  These representatives are elected on merit.  The criteria for merit is also prescribed by Sharia’.

“Those who hearken to their Lord, and establish regular Prayer; who (conduct) their affairs by mutual Consultation; who spend out of what We bestow on them for Sustenance;”…Surah Shura 38

4. Obedience of the ruler (Ulul-amr) – The citizens of an Islamic state must obey  their ruler/khalifa in all the matters that are not contrary to Islamic Sharia’.  They have a right to submit their doubts or complaints against khalifa or other officials in judicial courts.   They will be punished if they disobey the ruler or break laws.

“O ye who believe! Obey Allah, and obey the Messenger, and those charged with authority among you. If ye differ in anything among yourselves, refer it to Allah and His Messenger, if ye do believe in Allah and the Last Day: That is best, and most suitable for final determination”…Surah An-Nisa 59

5. Equality/Equal Opportunity – Islam denounces discrimination on the basis of race, colour, cast, creed, language, faith, and nationality.  Islam believes in human rights for each individual present there within the boundaries of an Islamic state.  The authorities and majority are guardians of the rights of minorities and are not allowed to interfere in there religious and personal matters.

“O mankind! We created you from a single (pair) of a male and a female, and made you into nations and tribes, that ye may know each other.  Verily the most honoured of you in the sight of Allah is the most righteous of you.  And Allah has full knowledge and is well-acquainted”  Surah Al-Hujraat 13

6. Justice – Rule of law and safety of people’s life and property regardless of any differences is one of the main objectives of an Islamic state.  All are equal before the law and the court cannot make distinction between elite and poor, the less privileged Muslims and non-Muslims.  All citizens are assured of the freedom to move around and enjoy their rights.  They can approach the judicial courts for fast and fair justice to solve their disputes.

“O ye who believe! stand out firmly for justice, as witnesses to Allah, even as against yourselves, or your parents, or your kin, and whether it be (against) rich or poor: for Allah can best protect both. Follow not the lusts (of your hearts), lest ye swerve, and if ye distort (justice) or decline to do justice, verily Allah is well- acquainted with all that ye do”  Surah An-Nisa 135

7. Welfare State/Social Welfare –  The state is responsible for the well-being of every citizen and for the proper provision of basic necessities to them.  The social welfare  is maintained through  collection of zakah.  Zakah is the yearly tax imposed upon Muslims on their savings.  Khilafah is an institution where religion and politics are not considered separate and khalifa/caliph/ruler/head is an authority over both terms, thus the government is authorized to collect zakah and distribute it according to the rules of sharia’.

“It is not righteousness that ye turn your faces Towards east or West; but it is righteousness- to believe in Allah and the Last Day, and the Angels, and the Book, and the Messengers; to spend of your substance, out of love for Him, for your kin, for orphans, for the needy, for the wayfarer, for those who ask, and for the ransom of slaves; to be steadfast in prayer, and practice regular charity; to fulfil the contracts which ye have made; and to be firm and patient, in pain (or suffering) and adversity, and throughout all periods of panic. Such are the people of truth, the Allah.fearing”  Surah Al-Baqarah 177

“Alms are for the poor and the needy, and those employed to administer the (funds); for those whose hearts have been (recently) reconciled (to Truth); for those in bondage and in debt; in the cause of Allah. and for the wayfarer: (thus is it) ordained by Allah, and Allah is full of knowledge and wisdom”…Surah Tauba 60

8. “Amr bil ma’roof wa nahi anil munkar” – The head of the state is ordered to follow the rule of “amr bil ma’roof wa nahi anil munkar” meaning order people to do good and stop them from wrong and punish them if they don’t.  It is to create an environment where people are persuaded to live in harmony, behave nicely, control their anger through sermons and/or public speeches.  Children are trained to develop such a character from homes and educational institutions.  The purpose is to reduce the rate of home-based or street crimes and stop people from harming each other.

“You are the best community that has been raised for mankind.  You enjoin good and forbid evil and you believe in Allah”  Surah Al-e-Imran 110

“The believers, men and women, are protectors of each other; they enjoin what is right and forbid what is evil”  Surah Tauba 71

“The hypocrites, both men and women, proceed one from another.  They enjoin the wrong and forbid the right”…Surah Tauba 67

Note – The course books do not explain the characteristics/features of an Islamic state as they are mentioned above.  #2 Khalifah/Caliph is replaced with caliphate because it doesn’t make sense to include caliphate as an article of the complete institution which is caliphate.  The references from Qur’an and ahadith are missing in three books that I have referred to.

Thus, an Islamic state or khilafah/caliphate is comprised of these eight features/characteristics; Sovereignty of Allah, Khalifa/ruler, consultation, obedience of the common Muslims towards their khalifah, equality, justice, welfare, “amr bil ma’roof wa nahi anil munkar”.  (do correct me if this is wrong).

Objection: As a Pakistani, we believe that Pakistan is naturally an Islamic state.  She has lost her true identity and couldn’t proceed in the right direction as must have been the dream of Allama Iqbal and Quaid-e-Azam.  The reasons are enormously numerous. Out of them, one is our poor and abnormal educational system.  The book writers seem highly obsessed with ancient foreign systems, most systems are proven dead.  Students cannot be blamed, even teachers do not take interest in explaining such boring, dull and dead theories for the whole year.  The curriculum does not include anything that can help a student developing positive thoughts about Pakistan.

This is very much unfair to include as a major part of the curriculum of political science, the centuries old ideologies and theories that most of them are irrelevant in today’s political environment.

Herbert Spencer’s organic theory, Bluntschli’s idea of state as a personified masculine, jusristic theory of the personality of state presented by Treitschke, Bluntschli, Jellinek and Maitland, Rousseau, Jhon Locke, Thomas Hobbes, Bertrand de Jouvenel and hundreds more….. they might be good to be studied in extra timings, but don’t deserve to be the part of the course book to occupy few chapters.

While the relevant content is not even mentioned in the book anywhere.  Allama Iqbal’s theory/ideology of an Islamic state, his political thoughts, Quaid-e-Azam’s understanding of Iqbal’s theory, his political efforts and strategies to prove it to be a practical one. What kind of state is Pakistan?  What features are missing and why, that can make Pakistan an ideal Islamic state?

Theory of Islamic State

Abu’l Hasan Ali ibn Muhammad al-Mawardi (350-436 A.H/972-1058 A.D — age 86) was the first political thinker in the history of Islam.  He was from Shafa’i fiqh.  (Correction: The course book says 364 A.H/975 A.D… while http://www.wordiq.com/definition/Al-Mawardi mentions 448 after Hijra and Wikipedia says 972 A.D…The first Hijri year was 622 A.D…. The difference between 972 and 622 is 350, which means he was born in 350 A.H)

Abu Hamid Muhammad bin Muhammad bin Muhammad bin Ahmed al-Ghazali (436-489 A.H/1058-1111 A.D — age 53) was born near Tus in Iran.  He wrote many books on political issues out of which “Ihya-ulUloom/The Revival of Religious Sciences” was his masterpiece.

Abu Zaid Abd ar-Rahman ibn Khaldun (710-784 A.H/1332-1406 A.D — 74) was born at Tunis in an Arab family.  He was a historian, a political scientist, a scholar of Islamic law and the founder of the sciences of civilization or umran (as he called a new science) now known as sociology. (Correction: The course book says 724 A.H while Wikipedia and http://www.muslimphilosophy.com/ik/klf.htm say 732 A.H…the difference between 1332 and 622 is 710 which means he was born in 710 A.H)

Were these three the only political scientists or experts of Muslim ummah who dared to present a present the theory of an Islamic state?  Al-Mawardi appeared as the first political thinker of Islam after a gap of more than three hundred years after the death of Prophet Muhammad (pbuh) in 10 A.H/632 A.D.  What were the Muslims doing during that time?  1406 to 2010 – 604 years have passed idle…or do we know any grand personalities who have made achievements on scholarly basis and gained international fame…Allama Iqbal (1255-1316 A.H/1877-1938 A.D — age 61), Maulana Mawdudi (1903-1979 A.D — age 76), Hurun Yahya, Shiekh Hamza Yusuf….. got a new name Hammad yousuf from Pakistan (http://metaexistence.org/timeline3.htm) as the philosopher and founder of MetaExistence school of thought and the presenter of a new political system against the Western one but couldn’t find more about it.

The fact is that Prophet Muhammad (pbuh) was the first political scientist and founder of a Islamic state.  Then the first four caliphs contributed politically to improve the system and so on.

Al-Mawardi, Al-Ghazali and Ibn-Khaldun… Can Allama Iqbal be counted as the fourth political scientist/political thinker, why or why not?  He wasn’t only a poet or a thinker or a philosopher.  He was a scholar of Qur’an as he explained it in poetic form and that distinguishes him from all other scholars…a better scholar that he argued with his father regarding the change of faith and convinced him.  He knew the languages.  He knew the history.  He was a political scientist, the presenter of a political theory….the ideology which helped in forming the world’s largest Islamic state.  The whole political movement of Pakistan was based upon his theory.

The spirit of 1947 can be revived not only by remembering and mourning over the sacrifices of the common Muslims, but also by recalling the theory, the ideology, by discussing different aspects of the movement in the classrooms.