Get Well Soon Edhi!

Just heard about respected Mr. Edhi being hospitalized.

Ya Allah (SWT)! Mr. Edhi is running half Pakistan.  Please keep him healthy and active as he’s always been.  If something happens to him , who’s gonna provide me with kafn and dafn.  So please have Mercy on him.  Ameen!  😥

But if You want to do a great favor, please take Zardari, Altaf Yazeed, Nawaz Sharif and Shahi Syed ‘s souls away.

.

اسمعیل میرٹھی کی نظمیں

.

برسات 
وہ دیکھو اٹھی کالی کالی گھٹا  
ہے چاروں طرف چھانے والی گھٹا 
گھٹا کے جو آنے کی آہٹ ہوئی  
ہوا میں بھی اک سنسناہٹ ہوئی 
گھٹا آن کر مینہ جو برسا گئی  
تو بے جان مٹی میں جان آگئی 
زمیں سبزے سے لہلانے لگی  
کسانوں کی محنت ٹھکانے لگی 
جڑی بوٹیاں، پیڑ آۓ نکل  
عجب بیل بوٹے، عجب پھول پھل 
ہر اک پیڑ کا اک نیا ڈھنگ ہے  
ہر اک پھول کا اک نیا رنگ ہے 
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا  
کہ جنگل کے جنگل ہرا ہو گیا 
.
پانی ہے کیا چیز 
دکھاؤ کچھ طبیعت کی روانی  
جو دانا ہو سمجھو کیا ہے پانی
یہ مل کر دو ہواؤں سے بنا ہے  
گرہ کھل جاۓ تو فورا ہوا ہے 
نہیں کرتا کسی برتن سے کھٹ پٹ  
ہر اک سانچے میں ڈھل جاتا ہے جھٹ پٹ 
جو ہلکا ہو اسے سر پر اٹھاۓ  
جو بھاری ہو اسے غوطہ دلاۓ
لگے گرمی تو اڑ جاۓ ہوا پر  
پڑے سردی تو بن جاتا ہے پتھر 
ہوا میں مل کے غائب ہو نظر سے  
کبھی اوپر سے بادل بن کے برسے 
اسی کے دم سے دنیا میں تری ہے  
اسی کی چاہ سے کھیتی ہری ہے 
اسی کو پی کے جیتے ہیں سب انساں  
اسی سے تازہ دم ہوتے ہیں حیواں 
تواضع سے سدا پستی میں بہنا  
جفا سہنا مگر ہموار رہنا
.
سچ کہو 
سچ کہو سچ کہو ہمیشہ سچ              
ہے بھلے مانسو کا پیشہ سچ 
سچ کہو گے تو تم رہو گے عزیز    
سچ تو یہ ہے کہ سچ ہے اچھی چیز 
سچ کہو گے تو تم رہو گے شاد      
فکر سے پاک, رنج سے آزاد 
سچ کہو گے تو تم رہو گے دلیر      
جیسے ڈرتا نہیں دلاور شیر 
سچ سے رہتی ہے تقویت دل کو      
سہل کرتا ہے سخت مشکل کو 
سچ ہے سارے معاملوں کی جان      
سچ سے رہتا ہے دل کو اطمینان 
سچ کہو گے تو دل رہے گا صاف  
سچ کرادے گا سب قصور معاف 
وہی دانا ہے جو کہ ہے سچا  
اس میں بڈھا ہو یا کوئی بچہ 
ہے برا جھوٹ بولنے والا
آپ کرتا ہے اپنا منہ کالا 
فائدہ اس کو کچھ نہ دے گا جھوٹ  
جاۓ گا ایک روز بھانڈا پھوٹ 
جھوٹ کی بھول کر نہ ڈالو خو
جھوٹ ذلت کی بات ہے اخ تھو! 
.
شفق 
شفق پھولنے کی بھی دیکھو بہار          
ہوا میں کھلا ہے عجب لالہ زار 
ہوئی شام بادل بدلتے ہیں رنگ              
جنھیں دیکھ کر عقل ہوتی ہے دنگ 
نیا رنگ ہے اور نیا روپ ہے              
ہر اک روپ میں یہ وہی دھوپ ہے 
ذرا دیر میں رنگ بدلے کی                
بنفشی و نارنجی و چنپئی
یہ کیا بھید ہے! کیا کرامات ہے            
ہر اک رنگ میں اک نئی بات ہے 
یہ مغرب میں جو بادلوں کی ہے          
باڑ بنے سونے چاندی کے گویا پہاڑ 
فلک نیلگوں اس میں سرخی کی لاگ  
ہرے بن میں گویا لگادی ہے آگ 
اب آثار پیدا ہوۓ رات کے                  
کہ پردے چھٹے لال بانات کے 
.
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو 
اگر طاق میں تم نے رکھ دی کتاب        
تو کیا دو گے کل امتحاں میں جواب 
نہ پڑھنے سے بہتر ہے پڑھنا جناب  
کہ ہو جاؤ گے ایک دن کامیاب
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
نہ تم ہچکچاؤ، نہ ہرگز ڈرو                
جہاں تک بنے کام پورا کرو 
مشقّت اٹھاؤ، مصیبت بھرو                
طلب میں جیو، جستجو میں مرو
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
زیاں میں بھی ہے فائدہ کچھ نہ کچھ      
تمہیں مل رہے گا صلہ کچھ نہ کچھ 
ہر اک درد کی ہے دوا کچھ نہ کچھ      
کبھی تو لگے گا پتا کچھ نہ کچھ 
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
تردّد کو آنے نہ دو اپنے پاس  ہے        
بے ہودہ خوف اور بے جا ہراس 
رکھو دل کو مضبوط، قائم حواس        
کبھی کامیابی کی چھوڑو نہ آس 
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو 
.
 

The Purpose of Examination in Primary Schools – سالانہ امتحانات کا مقصد

What is the purpose of final examination in elementary school?

What should be the syllabus of final exams in elementary school?

What should be the pattern of examination papers in elementary schools?

.

آج کل اسکولوں میں سالانہ امتحانات کا دور ہے… بچوں پر سلیبس اور ٹیوٹرز کا جتنا دباؤ ہے… شاباش ہے اس قوم کے بچوں کو کہ اپنے ہی استادوں اور والدین کے ظلم کی چکّی میں پستے ہیں اور کچھ نہیں کرسکتے ادب کی وجہ سے… طلبہ و طالبات کو کہتی ہوں کہ بھئی آواز اٹھاؤ کہ کیا پڑھنا ہے کیا نہیں، کیا شکایات ہیں… ایک نے آواز اٹھائی (ذرا غلط طریقےسے اٹھا لی) تو اسے اسکول سے نکال دیا… پھر یہ کہ بچے کہتے ہیں کیا شکایات کریں کس سے کریں اور کیسے… لکھنا نہیں آتا… اول لیولز کے بچوں کا یہ حال کہ کسی چیز میں ماہر ہونا تو دور کی بات، بات کرنے کے قابل نہیں… بس شکایتیں کرتے رہتے ہیں کہ یہ مضمون اچھا نہیں، وہ مشکل ہے… ہر مضمون سے بیزار… سارا سال گدھوں کی طرح کتابیں اٹھانے والے اور طوطوں کی طرح رتے لگانے والے تھکے تھکاۓ بچے… 
.
اسکولوں میں سالانہ امتحانات کا کیا مقصد ہے؟
اگر کوئی یہ کہے کہ اسکول ایڈمنسٹریشن یہ چیک کرنا چاہتی ہے کہ بچہ اگلی جماعت میں جانے کے لئے تیار ہے کہ نہیں تو غلط جواب ہوگا… سارا سال بچوں کے دماغ کو رگڑ رگڑ کر جو مختلف ٹیسٹ لئے جاتے ہیں، بچوں کی حاضری، انکی دلچسپی، انکے ہوم ورک کا معیار… یہ سب اساتذہ کی نظر میں ہوتا ہے اور انھیں اچھی طرح پتہ ہوتا ہے کہ کون سا بچا کتنے پانی میں ہے… کراچی کے پرائیویٹ اسکولوں میں تو ویسے بھی اندر ہی اندر پوزیشنز بکتی ہیں، اسکولوں کے پسندیدہ ماں باپ کے بچوں کو کس طرح اندر ہی اندر سب بتا دیا جاتے ہیں کہ وہی فرسٹ سیکنڈ آئیں… ایسے ہی تو اسکول اونرز بڑی بڑی گاڑیوں اور بنگلوں میں نہیں  رہتے… اور کراچی میں تو زیادہ تر پرائیویٹ اسکولز ویسے بھی ایم کیو ایم کے سپورٹرز ہیں… مجرمانہ ذہنیت تو ہوگی نہ انکی اور بھارتی غلامی کا سبق ہی دیں گے یہ بچوں کو…
.
اور اگر یہ کہاں جے کہ اسکول والے والدین کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ انکا بچہ کتنا ذہین ہے یا کس حد تک تیار ہے اگلے لیول کے لئے تو یہ پہلے سے بھی زیادہ غلط جواب ہوگا… جن گھروں میں بچے اسکول جاتے ہوں اور وہاں رات بارہ ایک بجے تک جگا جاتا ہو، سارا سال شادیوں اور تقریبات سے دو تین بجے تک لوٹنا، نانیوں کے گھر وقت بے وقت جانا، بھارتی چینلز پر انکے فنکاروں کو گھر کے افراد اور انکی فحاشی کو گھر کا ماحول سمجھنا، ماں باپ کا خود کتابوں اور علم سے بیزار ہونا اور نے نظم و بے ضبط زندگی گزارنا… یہ سب والدین کی نظروں کے سامنے ہوتا ہے… اور انھیں اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ انکی اولادیں کس قابل ہیں… ٹیوٹرز تو بچوں پرتعلیمی دباؤ ڈالنے کے لئے رکھے جاتے ہیں… 
البتہ اسکول والے اور والدین ایک دوسرے پر الزام ڈال کر اپنا فرض پورا ضرور کر لیتے ہیں… بچوں کا سال ضائع ہو وہ خیر ہے… 
.
سالانہ امتحانات کا مقصد طلبہ میں یہ اعتماد پیدا کرنا ہوتا ہے کہ وہ اگلی جماعت میں جانے کے قابل ہیں اور جتنی محنت اس سال کی ہے، اگلے سال اس سے زیادہ کریں تو اور اچھا نتیجہ نکل سکتا ہے… اس سے بچوں کو یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک پڑھنے، لکھنے اور حساب کتاب کے قابل ہوگئے ہیں… 
.
سالانہ امتحانات کا سلیبس کیسا ہونا چاہیے؟ 
ہمارے زمانے میں یعنی پچھلی صدی میں صرف دو امتحانات ہوتے تھے… ایک ششماہی اور دوسرے سالانہ… ششماہی امتحان میں پہلے چار مہینوں کا سلیبس ہوتا تھا کہ جو پڑھا ہے وہ آۓ گے اور سالانہ امتحانات میں پورے سال کا… پرچوں میں ایک دن کا وقفہ ہوتا تھا اور نہ ہو تو سالانہ امتحانات سے پہلے ایک ہفتے کی چوتھی ضرور ملتی تھی کہ طلبہ گھر پر خود پڑھائی کریں… امی اس ہفتے ہرجگہ آنا جانا بند کر دیتی تھیں اور ٹی وی بھی بند… گھر میں صبح شام کا پڑھائی کا وقت بنا دیا جاتا… وقت پر کھانا، وقت پہ سونا، وقت پہ کھیلنا… اردو، انگلش، ریاضی، سوشل اسٹڈیز (جس میں جغرافیہ شامل ہوتا)، سندھی، اسلامیات اور ڈرائنگ… نہ اردو ادب، نہیں انگلش لٹریچر، نہ کمپیوٹر… اپنے لیول کی چیزیں پڑھ کر پاس ہو جاتے… کبھی ٹیوشن نہیں پڑھا… ہاں بہت چھوٹی عمرمیں بھی اس قابل ضرور تھے کہ محلے کے بچوں کو انگلش اور اردو کے ابتدائی قاعدے اور گنتی سکھا سکیں… 
.
آج ماہانہ ٹیسٹ، سمسٹرز، سرپرائز ٹیسٹ، سالانہ امتحان… سارا سال سلیبس شیٹس ملتی رہتی ہیں… ساتھہ ہی ساتھ روزانہ دو تین ہوم ورک بھی… پہلی، دوسری، تیسری، چوتھی، پانچویں جماعت تک کے بچوں کو یہ کہہ کہہ کر دہشت زدہ کیا جاتا ہے کہ کہیں سے بھی آجاۓ گے کچھ بھی آجاۓ گا… والدین یا ٹیوٹرز پپرز والی رات دو دو بجے تک بچوں کو لے کر بیٹھے ہوتے ہیں کہ یہ بھی یاد کرو اور یہ بھی… 
یہی حال مدرسوں کے ہیں… پتہ نہیں کیوں ہمارے بڑے بچوں کو اذیت اور پریشانی میں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں… 
امتحانی پرچے کیسے ہونے چاہئیں؟ 
امتحانی پرچے ایسے ہونے چاہئیں کہ طلبہ آسانی سے اسے دو گھنٹے میں حل کر سکیں اور ایک گھنٹہ اس میں اپنی غلطیاں نکال سکیں… زیادہ تر تو آبجیکٹوس ہونے چاہئیں جیسے خالی جگہ پر کریں، صحیح غلط، جملے بنیں قسم کے سوالات… چار پانچ ایسے سوال جنکا جواب دو تین جملوں سے زیادہ نہ ہو… مضمون، درخوست، خلاصہ، افہام ٹفھین، یہ سب جونئیر ہائی یننی چھٹی جماعت سے شروع ہونا چاہیے… اسی طرح الجبرا اور مشکل مشکل فارمولے بھی پرائمری اسکول میں نہیں ہونے چاہئیں… 
.
آج کل جو پرچے بنتے ہیں اس میں تین گھنٹے میں اتنے مکاری والے سوال ہوتے ہیں کہ بچہ پہلے ہی سوچ لے کہ فیل ہوا ہی ہوا… سارا سال کے تھکے تھکاۓ بیزار بچوں کے سامنے جب پرچہ آتا ہے تو اس میں پتہ نہیں کہاں کہاں سے ٹیچرز اپنی عمر کے سوال ڈال کر بچوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیتی ہیں… پرائمری اسکول کے طلبہ اور وہ بھی جو آج کی جاہل ٹیچرز سے پڑھے ہوں کیا خاک پرچہ حل کریں گے… 
.
ارفع کریم، ستارہ بروج اکبر، موسی فیروز جیسے چھہ سات بچوں کے ورلڈ ریکارڈ بنا لینے کا یہ مطلب نہیں کہ ہر بچے پر تعلیمی قیامتیں ڈھا دی جائیں…
 .
.
.

Incomplete Personality – نا مکمّل شخصیت

Beside appearance, a personality is also identified and judged by its language, pronunciation and its appropriate usage.  Somehow, people of Pakistan have become negligent about correcting their children’s pronunciation.

They totally ignore the fact that how much wrong pronunciation irritates the listeners, they actually lose interest in listening to that person.  Parents don’t realize that incorrect pronunciation is a big defect in their children’s personality and not correcting is a big negligence.

.

آج کے پاکستان میں لوگ اپنے جسم کو، اپنے چہرے کو تو خوبصورت بنانے کی جان توڑ کوشش کرتے ہیں… لیکن شخصیت بنانے پر کوئی توجہ نہیں دیتے… کیونکہ آج ہمارا تعلق ایک دوسرے سے خلوص، رواداری، معاشرے کی تعمیر، قوم کی تکمیل نہیں ہے… آج ہمارا رشتہ ایک دوسرے سے صرف اور صرف معا شی ہے اور صرف فائدے اور نقصان پر مبنی ہے…اوپر والے مقاصد تو دو گھنٹے کے مارننگ شوز میں یا ایک ایک گھنٹے کے پروگرامز میں میزبان کے نام پر بٹھاۓ گۓ ماڈلز کے حوالے کر دے گۓ ہیں… کہ وہ کسی طرح یہ ثابت کریں کہ ہم ایسا اچھا معاشرہ ہیں… حالانکہ اصل زندگی میں انکا بھی رویہ یہی ہوتا ہوگا… 
ایک طریقے سے اچھی بات بھی ہے کہ لوگ ظاہری جسم کو پرکشش بنانا سیکھ لیتے ہیں… لیکن صرف یہی تو شخصیت نہیں ہوتی… 
آج سے تیس چالیس سال پہلے کے لوگ جانتے تھے کہ شخصیت میں ایک بہت بڑا حصّہ انسان کی زبان کا ہوتا ہے… الفاظ کا چناؤ، انکا صحیح تلفظ، حروف کی ادائیگی اور انکی صحیح موقع پر ادائیگی… عام گھروں میں رہنے والے والدین ان چیزوں پر توجہ دیتے تھے… خود ہماری والدہ دن میں چھتیس مرتبہ ٹوکتی تھیں، “یہ کس طرح بات کر رہے ہو، صحیح لفظ بولو”…
آج کے والدین اتنا پیار کرتے ہیں اپنی اولاد سے اور اتنا دل رکھتے ہیں انکا کہ انکی شخصیت کے اس ایک حصّے کو بالکل نذر انداز کر دیتے ہیں… اور والدین کو تو اندازہ نہیں ہوتا لیکن سننے والوں کے کانوں کو برا لگتا ہے اور اگر کوئی خود کو اہل زبان سمجھے تو انکو ناگوار گزرتا ہے، الفاظ کے تلفظ کو بگاڑ کر فخر سے بولنا… اور درست نہ کرنا…  بلکہ باقاعدہ کوفت ہوتی ہے اور بات سننے کو دل نہیں چاہتا…
جبکہ شاید شخصیت کی درستگی میں اگر سب سے آسان کوئی چیز ہے تو وہ ہے الفاظ کے تلفظ کو درست کرنا، خاص کر انسان اگر پڑھا لکھا بھی ہو… میں نے خود ابھی ایک خاندان کے چار بچوں کا جو حد سے زیادہ زیر اثر تھے بھارتی لہجے کے، انکے تلفظ درست کرواۓ ہیں… جنکے بارے میں ماں باپ کا خیال تھا کہ یہ صحیح نہیں ہو سکتے اور یہ کوئی خاص بات نہیں، بس انسان کا اچھا ہونا کافی ہے… 
جب ماں باپ بھی ساتھ نہ دیں اپنے بچوں کا تو دوسروں کے لئے انکی تلفظ کی درستگی کا کام بہت مشکل ہو جاتا ہے… ایسے ماں باپ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انسان کے اچھا ہونے کی بھی کچھ نشانیاں ہوتی ہیں جن میں ایک الفاظ کا صحیح تلفظ کے ساتھ ادائیگی بھی ہے… 
حیرت ہوتی ہے کہ کروڑوں لوگوں تک کسی بھی چیز کے معاملے میں اثر انداز ہونے والے میڈیا کا کوئی معیار ہی نہیں ہے، اگر آپ پاکستان کے چینلز ہو تو کم از کم اس کی شناخت کا تو خیال رکھیں، اور قومی زبان اردو اور اسکا لہجہ پاکستان کی شناخت ہے… لوگ صرف کپڑوں اور میک اپ ہی نہیں دیکھتے، آواز بھی سنتے ہیں… اور سننے کی صلاحیت کی وجہ سے وہی لہجہ اپنا لیتے ہیں…
پروگرامز کے میزبان بلا تکلف، بغیر کسی شرمندگی کے خیال کو کھیال، خود کو کھد، خوش کو کھش، خوشی کو کھشی، آخر کو آکھر کہ رہے ہوتے ہیں… مزے کی بات یہ بگاڑ مردوں کی زبان میں نہیں، خواتین کی زبان میں پایا جاتا ہے… جو کہ خود انکی شخصیت میں کمی ہی نہیں بلکہ ایک غفلت کی بھی نشانی ہے… 
خ کا تلفظ بہت آسان ہے… بچے کو یا بڑے کو حلق کے اوپری حصّے پر انگلی رکھا کر یہ حرف ادا کرنے کو کہیں اور اسے بتائیں کہ یہ حرف جب ادا ہو تو آپ کے حلق میں کس جگہ وائبریشن ہوتی ہے تاکہ وہ ادھر ہی فوکس کرے… اور پھر یہ بتائیں کہ  “خ اور کھ ” کا فرق کیا ہے… لیکن اس سے پہلے دن میں دس بیس مرتبہ خود دس بیس مرتبہ اسے دہرائیں تاکہ اس بچے یا بڑے کے کان کو ایک عادت سی ہو جاۓ… پھر وہ الفاظ دہراۓ جائیں جن میں خ آتا ہے…
اسی طرح باقی حروف یعنی ” غ اور گ ، ق اور ک ،  کے ساتھ کریں اور انکی ادائیگی کا فرق بتائیں…
اور ساتھہ ساتھہ یہ احساس دلائیں کہ گو کہ لوگ جاہل ہیں اور اب ان چیزوں کی طرف توجہ نہیں دیتے لیکن بہر حال یہ تمہاری شخصیت کی ایک بہت بڑی کمی ہے… جسکو خود ٹھیک کرو اور دوسروں کو بھی بتاؤ کہ کیسے ٹھیک کریں… 
.
آج کے پاکستان میں لوگ اپنے جسم کو، اپنے چہرے کو تو خوبصورت بنانے کی جان توڑ کوشش کرتے ہیں… لیکن شخصیت بنانے پر کوئی توجہ نہیں دیتے… کیونکہ آج ہمارا تعلق ایک دوسرے سے خلوص، رواداری، معاشرے کی تعمیر، قوم کی تکمیل نہیں ہے… آج ہمارا رشتہ ایک دوسرے سے صرف اور صرف معا شی ہے اور صرف فائدے اور نقصان پر مبنی ہے…اوپر والے مقاصد تو دو گھنٹے کے مارننگ شوز میں یا ایک ایک گھنٹے کے پروگرامز میں میزبان کے نام پر بٹھاۓ گۓ ماڈلز کے حوالے کر دے گۓ ہیں… کہ وہ کسی طرح یہ ثابت کریں کہ ہم ایسا اچھا معاشرہ ہیں… حالانکہ اصل زندگی میں انکا بھی رویہ یہی ہوتا ہوگا… 
ایک طریقے سے اچھی بات بھی ہے کہ لوگ ظاہری جسم کو پرکشش بنانا سیکھ لیتے ہیں… لیکن صرف یہی تو شخصیت نہیں ہوتی… 
آج سے تیس چالیس سال پہلے کے لوگ جانتے تھے کہ شخصیت میں ایک بہت بڑا حصّہ انسان کی زبان کا ہوتا ہے… الفاظ کا چناؤ، انکا صحیح تلفظ، حروف کی ادائیگی اور انکی صحیح موقع پر ادائیگی… عام گھروں میں رہنے والے والدین ان چیزوں پر توجہ دیتے تھے… خود ہماری والدہ دن میں چھتیس مرتبہ ٹوکتی تھیں، “یہ کس طرح بات کر رہے ہو، صحیح لفظ بولو”…
آج کے والدین اتنا پیار کرتے ہیں اپنی اولاد سے اور اتنا دل رکھتے ہیں انکا کہ انکی شخصیت کے اس ایک حصّے کو بالکل نذر انداز کر دیتے ہیں… اور والدین کو تو اندازہ نہیں ہوتا لیکن سننے والوں کے کانوں کو برا لگتا ہے اور اگر کوئی خود کو اہل زبان سمجھے تو انکو ناگوار گزرتا ہے، الفاظ کے تلفظ کو بگاڑ کر فخر سے بولنا… اور درست نہ کرنا…  بلکہ باقاعدہ کوفت ہوتی ہے اور بات سننے کو دل نہیں چاہتا…
جبکہ شاید شخصیت کی درستگی میں اگر سب سے آسان کوئی چیز ہے تو وہ ہے الفاظ کے تلفظ کو درست کرنا، خاص کر انسان اگر پڑھا لکھا بھی ہو… میں نے خود ابھی ایک خاندان کے چار بچوں کا جو حد سے زیادہ زیر اثر تھے بھارتی لہجے کے، انکے تلفظ درست کرواۓ ہیں… جنکے بارے میں ماں باپ کا خیال تھا کہ یہ صحیح نہیں ہو سکتے اور یہ کوئی خاص بات نہیں، بس انسان کا اچھا ہونا کافی ہے… 
جب ماں باپ بھی ساتھ نہ دیں اپنے بچوں کا تو دوسروں کے لئے انکی تلفظ کی درستگی کا کام بہت مشکل ہو جاتا ہے… ایسے ماں باپ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انسان کے اچھا ہونے کی بھی کچھ نشانیاں ہوتی ہیں جن میں ایک الفاظ کا صحیح تلفظ کے ساتھ ادائیگی بھی ہے… 
حیرت ہوتی ہے کہ کروڑوں لوگوں تک کسی بھی چیز کے معاملے میں اثر انداز ہونے والے میڈیا کا کوئی معیار ہی نہیں ہے، اگر آپ پاکستان کے چینلز ہو تو کم از کم اس کی شناخت کا تو خیال رکھیں، اور قومی زبان اردو اور اسکا لہجہ پاکستان کی شناخت ہے… لوگ صرف کپڑوں اور میک اپ ہی نہیں دیکھتے، آواز بھی سنتے ہیں… اور سننے کی صلاحیت کی وجہ سے وہی لہجہ اپنا لیتے ہیں…
پروگرامز کے میزبان بلا تکلف، بغیر کسی شرمندگی کے خیال کو کھیال، خود کو کھد، خوش کو کھش، خوشی کو کھشی، آخر کو آکھر کہ رہے ہوتے ہیں… مزے کی بات یہ بگاڑ مردوں کی زبان میں نہیں، خواتین کی زبان میں پایا جاتا ہے… جو کہ خود انکی شخصیت میں کمی ہی نہیں بلکہ ایک غفلت کی بھی نشانی ہے… 
خ کا تلفظ بہت آسان ہے… بچے کو یا بڑے کو حلق کے اوپری حصّے پر انگلی رکھا کر یہ حرف ادا کرنے کو کہیں اور اسے بتائیں کہ یہ حرف جب ادا ہو تو آپ کے حلق میں کس جگہ وائبریشن ہوتی ہے تاکہ وہ ادھر ہی فوکس کرے… اور پھر یہ بتائیں کہ  “خ اور کھ ” کا فرق کیا ہے… لیکن اس سے پہلے دن میں دس بیس مرتبہ خود دس بیس مرتبہ اسے دہرائیں تاکہ اس بچے یا بڑے کے کان کو ایک عادت سی ہو جاۓ… پھر وہ الفاظ دہراۓ جائیں جن میں خ آتا ہے…
اسی طرح باقی حروف یعنی ” غ اور گ ، ق اور ک ،  کے ساتھ کریں اور انکی ادائیگی کا فرق بتائیں…
اور ساتھہ ساتھہ یہ احساس دلائیں کہ گو کہ لوگ جاہل ہیں اور اب ان چیزوں کی طرف توجہ نہیں دیتے لیکن بہر حال یہ تمہاری شخصیت کی ایک بہت بڑی کمی ہے… جسکو خود ٹھیک کرو اور دوسروں کو بھی بتاؤ کہ کیسے ٹھیک کریں… 
.
.
.
.

Confusions in Basic Arabic Grammar – عربی قواعد میں پیچیدگیاں

One of the miracles of is that it is the only book which is read and memorized by millions without understanding its language.

The miracle of Arabic language is that millions of Muslims learn Arabic with the intention of understanding Qur’an without having any attachment with Arabs.

Pakistanis learn Arabic for the same purpose.  The great advantage they have is that all (29) Arabic Alphabets are the part of Urdu Alphabets and are pronounced same in both languages.  More than 75% of Urdu words are taken from Arabic language and are used in the same meanings.  That is why the process of understanding Qur’an is much easier for Pakistanis as compared to other nations.

The books that are used in madrassahs and language institutions to teach Arabic make Arabic learning little complicated.  Putting the contents in all books together even don’t give an organized image of Arabic grammar.  Most books either explain more about verbs than noun and particles.  The writers select contents on the basis of their own preference of grammatical terms.

Generally, what they all teach is that Arabic alphabets compose two kinds of words; Mozoo’ (meaningful words) and Muhmil (meaningless).  Muhmil words have no types so they end right here.

Mozoo’ words are then categorized into two kinds; Mufrid (single word) called Kalimah and Murakkab (compound) which could be a sentence too.

Kalimah (single meaningful word) is divided into three types; Noun, Verb and Particles.  This means that entire Arabic vocabulary of meaningful words belong to one of these types.  Each type has its own definition and properties and words following the properties fall into that category.

.

The examples of these properties are as follows:

1- Particles are Mabni (their movements/sounds don’t change).  They have no gender, no numbers, no common or proper state and no cases of being subject or object.

2- Verbs are divided into past and present (present tense with signs makes future tense).  Past tense is all Mabni.  Verbs have gender, number and case of being subject or object beside action.  They have no common or proper state.

3- Nouns have gender, number, state of common and proper noun and case of being subject or object.  There is no concept of it in Arabic language.  A word has to be either masculine or feminine.

.

Still there are many things mentioned in the books are uncleared and create confusions for non -Arab students.  Although these complications are only literally and may cause confusion in learning language but not in Qur’anic understanding.  For example,
1- Ism Mushtaq (nouns derived from Masdar, the true nouns) are said to be six, seven or eight, depending upon how writers understand it.
2- Zameer (pronouns) are called noun but are not put under noun’s category.  Neither they are categorized as a separate one.
3- All verbs are said to be derived from Masdar (like Ism Mushtaq) but have their own category due to their own particular signs and formation.  
4- Ism Mansoob (nouns that show relation, like Pakistani, Arabian, Semitic) is neither under noun nor compound.
5- Some books include Murakkab Mana Sarf and Mazji (two kinds of compound) in compounds and some don’t.
6- Verbs have either three types or five, while all formations of verbs are derived from the two basic tenses, past and present.
7- Words of question or interrogation are called nouns while they don’t fulfill the properties to be a noun but particles.
8- “harf amilah dar fail mazara’ jazmah” (particles which cause change in ending sound and make it soundless) are either four or five?
9- Some words are called ‘noun to show time and place’  and at the same time they are called preposition without the change in their use or meaning.
.
.
قرآن دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جسکو کروڑوں لوگ سمجھے بغیرپڑھنا سیکھ لیتے ہیں… یہ بات خود قرآن کے معجزات میں سے ایک ہے… عربی زبان دنیا کی وہ واحد زبان ہے جسکو کروڑوں لوگ عربی قوم سے کسی تعلق، نسبت یا انسیت کے بغیر صرف اسلام سے محبت کی وجہ سے سیکھتے ہیں… یہ عربی زبان کا معجزہ ہے…
.
پاکستان کے مدارس اور لسانی ادارے عربی زبان کے قواعد پڑھانے کے لئے جو بھی کتابیں استعمال کر رہے ہیں… ان میں کافی قدریں یا اصول مشترک ہیں… لیکن ساتھ ساتھ کچھ پیچیدگیاں بھی ہیں… یہ پیچیدگیاں شاید عربیوں کے لئے نہ ہوں یا انکے لئے کوئی معنی نہ رکھتی ہوں کیونکہ وہ اہل زبان ہیں… ویسے بھی اہل زبان کے لئے ضروری نہیں کہ انھیں اپنی زبان کے قواعد کا پتہ ہو… جبکہ عجمی یعنی کہ غیرعرب یا تو عربوں کے ساتھ رہ کر بغیرکسی قواعد کے یہ زبان سیکھتے ہیں… یا انہیں قرآن کو سمجھنے کے لئے عربی زبان سیکھنی پڑتی ہے… اہل زبان کی عربی اور قرآن کی عربی میں بہر حال فرق ہے جیسا کہ ہر زبان کی بولی اور قواعد میں فرق ہوتا ہے… اہل زبان کہیں کے بھی ہوں، وہ بات چیت کرتے وقت قواعد کے بارے میں نہیں سوچتے… قواعد کی ضرورت یا تو لکھنے لکھنے کے لئے ہوتی ہے… یا پھر کسی دوسری زبان کو سیکھنے کے لئے…
.
پاکستانی بھی عربی زبان کو قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لئے ہی سیکھتے ہیں…
قرآن میں جو عربی کے الفاظ استعمال ہوۓ ہیں ان میں کوئی بھی حرف یا لفظ بلا وجہ نہیں ہے… بلکہ ہر حرف، لفظ اور حرکت کا کوئی نہ کوئی مطلب اور مقصد موجود ہے… اس لئے جو لوگ قرآن کو سمجھنے کے لئے عربی سیکھنا چاہتے ہوں انھیں قرآن ہی کے ذخیرہ الفاظ اور جملوں کی بناوٹ پر غور کرنا چاہیے… اور ایسا ممکن نہیں جب تک کہ عربی حروف تہجی، انکے مخرج، الفاظ، انکی حرکات کی پہچان نہ ہو… پاکستانیوں کے لئے یہ بات بھی مسئلہ نہیں کیونکہ اردو زبان کے پچھتر فیصد سے بھی زیادہ الفاظ عربی زبان سے ہی لئے گئے ہیں… اور عربی کے تمام حروف تہجی اردو میں موجود ہیں اور اسی ترتیب میں ہیں…
.
البتہ احادیث مبارکہ کو سمجھنے کے لئے عربی قواعد کے علاوہ عام فہم عربی زبان سے واقف ہونا بھی ضروری ہے…
.
عربی زبان سیکھتے وقت بتایا جاتا ہے کہ عربی حروف تہجی سے دو قسم کے الفاظ بنتے ہیں… موضوع یعنی با معنی الفاظ اور مہمل یعنی بے معنی الفاظ…
مہمل الفاظ کی کوئی قسم نہیں لہذا اگر یہ ہیں تب بھی یہیں ختم ہو جاتے ہیں… جسکا مطلب ہے کہ باقی سارے الفاظ با معنی ہیں… 
موضوع الفاظ دو قسم کے ہوتے ہیں… مفرد یعنی اکیلا لفظ جسے کلمہ بھی کہتے ہیں…اور مرکب یعنی کچھ الفاظ کا مجموعہ،  جو کہ جملہ بھی ہو سکتا ہے… 
کلمہ کی تین قسمیں ہیں… اسم، فعل اور حرف … اس کا مطلب ہے کہ تمام کے تمام با معنی الفاظ ان تین میں سے کسی ایک سے تعلق ضرور رکھتے ہوں گے… ورنہ وہ مہمل ہونگے…
.
کلمات کو اسم، فعل اور حرف میں تقسیم کرنے کی وجہ انکی علامات، حرکات اور استعمال ہے…
مثال کے طور پر…..
١) تمام حروف مبنی ہوتے ہیں یعنی انکے اعراب تبدیل نہیں ہوتے… حروف میں  مذکر موَنث، واحد تثنیہ جمع، رفع نصب جر اور نکرہ اور معرفہ  نہیں ہوتا…
٢) فعل میں مذکر موَنث، واحد تثنیہ جمع اور رفع نصب جر کی خاصیت موجود ہوتی ہے لیکن نکرہ  معرفہ نہیں ہوتا… فعل ماضی پورا مبنی ہوتا ہے…
٣) اسم میں مذکر موَنث، واحد تثنیہ جمع، رفع نصب جر اور نکرہ اور معرفہ کی خصوصیت ہوتی ہیں… اسم مبنی بھی ہو سکتے ہیں اور معرب بھی…
.
.
پیچیدگیاں:
.
١) عربی زبان کو سکھانے کے لئے لکھی گئی کتابوں میں اکثر اصطلاحات کی تعریفوں میں صرف فرق ہی نہیں ہوتا بلکہ انکی تقسیم بھی عجیب انداز سے کی گئی ہوتی ہے… مثال کے طور پر کسی کتاب میں اسم مشتق کی چھ ، کسی میں سات اور کسی میں آٹھ قسمیں ہیں… مطلب کہ کسی نے ایک قسم کو دوسرے سے ملا دیا تو کسی نے علحیدہ رکھا… ایک کتاب میں فعل اور اسم کے کچھ حصّے ہوتے ہیں اور دوسرے 
٢) ضمائر کو اسم بھی کہا گیا ہے لیکن نہ تو انہیں اسم کے ما تحت رکھا گیا ہے نہ انکی کوئی الگ قسم بنائی گئی ہے… کیونکہ بہر حال یہ فعل اور حرف تو ہیں نہیں…
٣) فعل کو الگ کلمہ کیوں بنایا گیا ہے جبکہ تمام افعال اسم مصدر سے ماخوذ ہوتے ہیں… اور سواۓ نکرہ معرفہ (عام اور خاص) کے باقی تینوں حالتیں موجود ہوتی ہیں…
٤) اسم منسوب کو نہ اسم میں رکھا گیا ہے نہ مرکبات میں…
٥) کچھ کتابوں میں مرکب منع صرف اور مرکب مزجی کو مرکبات میں شامل نہیں کیا گیا…
٦) کہیں فعل یا افعال کی قسمیں تین فعل ماضی، فعل مضارع اور فعل امر بتائی ہیں اور فعل نہیں اور کہیں فعل جحد ملا کرپانچ….
٧) کسی میں “حرف عاملہ در فعل مضارع جازمہ” چار ہیں اور کہیں پانچ…

٨) استفہامیہ یا سوالیہ کلمات کو اسم میں کیوں ڈالا جبکہ یہ حرف کو خصوصیات پر پورا اترتے ہیں، اسم کی نہیں…
٩) کچھ الفاظ کو اسم ظروف بھی کہا گیا ہے اور ساتھ ہی حرف عاملہ در اسم” میں “حرف جر” بنایا گیا ہے… کیوں؟ جبکہ استعمال وہی ہے…
.

وہ دن جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا – سوره المزمّل

.

وہ دن جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا – سوره المزمّل
یہ قیامت کے بارے میں کہا گیا ہے… لیکن ہمارے والدینوں نے اپنے بچوں پریہ قیامت پہلے ہی نازل کردی…
.
والدین کے اپنے بچوں کو کم عمری میں زیادہ سے زیادہ اور انکے ذہن سے بڑھ کر علم دینے کے پاگل پن نے بچوں کو بچپنے میں ہی بوڑھا کردیا ہے… اور وہ بھی اس طرح  کہ ہربچہ ہر مضمون میں اوّل آۓ ورنہ وہ نکمّہ ہے…
اسکول ایڈ منسٹر یشنزکے اپنے اسکولوں کی مشہوری اور زیادہ سے زیادہ فیس لینے کی دوڑ نے بچوں کو بوڑھوں کی طرح تھکا دیا ہے… باہر سے درآمد شدہ سلیبس اور اپنے پسندیدہ، کھاتے پیتے رشوت دینے والے گھرانوں کے بچوں کو پوزیشنز دینا انکا بزنس چارم ہے… 
.
مونٹیسری لیول اور پہلی دوسری جماعت تک تو بچے کسی نہ کسی طرح محنت کر کے کچھ کامیابی دکھاتے ہیں اور پھر تھکنا شروع ہو جاتے ہیں… آگے جماعتوں میں وہ بیزار نظرآتے ہیں… اکثر ماں باپ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ “بچپن میں یہ اتنا ذہین تھا، اب پتا نہیں کیا ہو گیا ہے پڑھتا ہی نہیں”…
.
خود سوچیں کہ بچے تھکیں گے نہیں، پاگل نہیں ہونگے، بیزارنہیں ہونگے تو کیا کریں گے… اسکول کے دنوں میں ہڑتالیں اور چھٹیاں ہو جاتی ہیں اور پھر بچوں کو ہفتہ کو بلایا جاتا ہے… امتحانات کے زمانے میں کرکٹ اور دوسری اٹریکشنز رکھی جاتی ہیں… یا ہنگامے اور بجلی وغیرہ کی لوڈ شیڈنگ… 
پھرہر ٹیچر یہ کرتی ہے کہ ابھی ایک مضمون پڑھایا اور دوسرے تیسرے دن ٹیسٹ دے دیا… اس سے بھی بڑھ کر سرپرائز ٹیسٹ، جو کسی بھی دن لے لئے جاتے ہیں… انکے علاوہ فائنلز اور دوسرے امتحانات الگ ہیں… 
.
موسم کی سختی اور غیرمعیاری جگہوں پر چھہ سات گھنٹے گزارنے کے بعد ٹرانسپورٹ کی تکلیفات اور پھر گھر آکر مولوی صاحب سے قرآن اور گھنٹوں ٹیوشن پڑھنا اور ٹیسٹ کی تیاری کرنا…  
یہ تعلیم دینے کا کونسا طریقہ ہے…
.
.

Minor Issues – چھوٹی چھوٹی ارادی غفلتیں

…  بڑی ہی عجیب سی بات ہے ملک بدترین حالات میں اور ہر فرد یہ سمجھتا ہے کہ وہ صحیح ہے 

تقریبا ہر کسی کی زبان سے ایک جملہ نکلتا ہے… “دیکھیں یہ تو چھوٹی سی بات ہے، ہمیں اصل ایشوز پر توجہ دینی چاہیے”… لیکن آخر جنھیں اصل ایشوز کہا جاتا ہے وہ ہیں کیا؟… 
جملہ بالکل ٹھیک ہے، لیکن یہ جملہ کب کہا جاتا ہے… عموما جب کسی مرد یا عورت سے بات کرتے ہوۓ کوئی ایسا اعتراض سامنے آ جاۓ جسکا تعلق انکی ذات سے بھی ہو… چھوٹی چھوٹی غفلتوں کو جان بوجھ کر جسٹفاۓ کرنا بھی ایک فیشن بن گیا ہے… مثالیں بہت مل جائیں گی…
اگر بات کرتے کرتے یہ مسلہ آجاۓ کہ……
.
١) تعلیم اور نظام اردو زبان میں چلایا جاۓ یا انگلش میں… تو جواب ملتا ہے “دیکھیں زبان سے کچھ نہیں ہوتا، اب دنیا میں ترقی کے لئے انگلش ضروری ہے، اور اردو میں کونسا ریسرچ کرنی ہے… زبان کوئی بھی ہو بس ہم ترقی کریں، اچھی قوم بنیں کیونکہ اصل مسلہ ہماری پسماندگی ہے… وغیرہ”
.
٢) آج کل گھروں میں، ٹی وی پر، اسکولوں میں اردو کے الفاظ کا تلفظ بگاڑ کر استعمال کیا جاتا ہے… لائف بواۓ کول فریش صابن کے کمرشل میں ایک جاہل خاتون خود کو معصوم ظاہر کرتے ہوۓ لفظ خارش کو کھارش کہتی ہیں… ٹیچرز، بچے، ماڈرن بننے کی کوشش کرنے والی خواتین، اپنا لاڈلا پن ظاہر کرنے والی خواتین، اداکارائیں وغیرہ… حتی کہ بڑے بڑے عوام کے چہیتے نفسیاتی ڈاکٹر تک ہیلتھہ  ٹی وی چینلز پر غلط تلفظ سے اردو بولتے ہیں، اردو کے رول ماڈل بننا چاہتے ہوں گے… یہ بیماری خواتین میں زیادہ ہے…
چھوٹی سی بات ہے نہ، شاید بے چارے لوگوں کے بڑے بڑے مسلے حل کرنے والے اپنی ہی ذات کی اس کمی کو پورا کرنے کے قابل نہیں … 
بڑے فخر سے خیال کو کھیال، آخری کو آ کھری، خود کو کھد، غلطی کو گلتی، پیغام کو پیگام، نغنہ کو نگما، غلام کو گلام، قیمہ کو کیمہ، قیامت کو کیامت، اقبال کو اکبال، اور خ غ  ق کے سارے الفاظ کو بگاڑ بگاڑ کر بولتے ہیں… تو جواب آتا ہے “یہ چھوٹی سی بات ہے، ظاہر ہے آج کل کا ماحول ہے، لیکن ہمیں مل کر ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کرنا چاہیے، اصل مسلہ ہے کہ جہالت ختم کریں، بلا بلا…”…
.
٣) پان کھا کر یا بغیر پان کھاۓ جگہ جگہ تھوکنا بری بات ہے…. “دیکھیں یہ تو چھوٹی سی بات ہے، اصل تو یہ جو کوڑے کے بڑے بڑے ڈھیر جا بجا پڑے ہوۓ انھیں حکومت ہٹاۓ ان سے بیماریاں پھیلتی ہیں”…
.
٤) اسکول کالج چند گھنٹوں کے لئے علم حاصل کرنے کی جگہ ہیں، یہاں گانے بجانے ناچنے کی تربیت نہیں دینی چاہیے اس کے لئے بہت ادارے، ٹی وی چینلز، اسٹیج کافی ہیں… “دیکھیں یہ چھوٹی سی بات ہے ناچنے گانے سے کچھ نہیں ہوتا، یہ تو بچوں کے لئے ضروری ہے، بس نظام تعلیم ٹھیک ہونا چاہیے، اس پر ہم توجہ نہیں دیتے”…
.
٥) ٹی وی پر یا پبلک میں مرد اور خواتین اپنے لباس کا خیال رکھیں… “کیا پہنا، کیسے لگ رہے ہیں، یہ سب کی ذاتی پسند نا پسند کا معاملہ ہے… اصل چیز ہے کہ انسان کسی کا دل نہ دکھاۓ، کسی کو تکلیف نہ دے، اچھے کام کرے”…
.
٦) فلاحی نظام عوام کی نہیں حکومت کی ذمہ داری ہے یا عوام میں ہو تب بھی توایک مرکزی نظام کے تحت ہو، یہ چھوٹے چھوٹے ادارے کھول کر جو وسائل کو ضائع کیا جاتا ہے یہ نہ ہو … “لوگوں کی مرضی ہے، انکے پیسے وہ کسی کو بھی دیں یا خود کوئی ادارہ کھولیں کوئی پابندی تو نہیں”… 
.
٧) پرہیزعلاج سے بڑھ کر ہے، اس لئے ہسپتال کھولنے کے بجاۓ ماحول کو صحتمند بنانے کی کوشش کرنی چاہیے، مریض اور مرض خود بخود کم ہو جائیں گے… “لیکن دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تو صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جاتا ہے، وہاں بھی ہسپتال ہیں، یہ سب الله کی طرف سے ہوتا ہے”… 
.
٩) شراب پر پابندی ہونی چاہیے… “دیکھیں شراب کا ایک تو کوئی واضح حکم قرآن میں موجود نہیں… دوسرے ترقی یافتہ قومیں اگر ان چکّروں میں پڑتی تو آج اتنی خوشحال نہ ہوتیں”…
.
١٠) سارے گھر والوں کو چاہیے کہ جب انکے مرد گھر سے نکلیں تو انھیں احساس دلادیں کہ باہرنکلنے والی خواتین کسی گھر کی عزت ہیں، انکے لئے شیطان کا روپ دھرنے کے بجاۓ انھیں بھی عزت سے دیکھنا… “لڑکی یا عورت کو خود ہی ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، مردوں کی عادتیں تو ایسی ہی ہوتی ہیں”…
.
١١) ہندوستانی میڈیا کا بوائیکاٹ کریں، انکے چینلز بند کریں، تین تین چار چار سال کے بچوں کے ذہن اور روح آلودہ ہوتی ہے، خواتین کی بے حرمتی اور انھیں کس نظر سے دیکھنا چاہیے وہیں سے سیکھتے ہیں لڑکے… “یہ کیا بات ہوئی، ہم بھی تو ہندستانی فلمیں دیکھ دیکھ کر بڑے ہوۓ ہیں، ہمارے کردار اور تہذیب پر تو کوئی فرق نہیں پڑا اور ہمارے گھر کے مرد بھی صحیح ہیں، اصل چیز ہے کہ تعلیم کا نظم اچھا ہو”…
.
اب ذرا ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو ذرا ایک ساتھ جمع کریں… 
قومی زبان قوم کی علامت نہیں، ضروری وہ زبان ہے جس سے دولت کمی جاۓ …
قومی زبان کو بگاڑ کر بولنا آئین میں لکھا ہے قومی جرم نہیں ہے… زبان نہیں دل دیکھیں… حالانکہ دلوں کا
حال صرف الله جانتا ہے… ہمیں تو زبان ہی دی ہے پہچان کے لئے…
جگہ جگہ تھوکنے کا تعلق تہذیب سے نہیں ہے… کسی آئینے میں اپنا منہ دیکھ کر اس پر بھی تھوک لیں نہ…
اسکولوں کالجوں میں گانا ناچنا تعلیمی نظام کا حصّہ ہے… تو پھر اور کونسی چیز علم سے دوری کا سبب ہے؟
کسی بھی قسم کا لباس اورحلیہ پبلک میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا… حلیہ حلیہ ہوتا ہے گندا ہو یا ننگا…
لوگوں کے دس، پچاس، سو، ہزار ذاتی مال ہوتے ہوۓ بھی قومی دولت کا حصّہ ہوتے ہیں، اسے ضائع کرنا ذاتی پسند ہے… 
ماحولیات ایک غیر ضروری بحث ہے… خوبصورتی اور صفائی جیسی اعلی صفات سے اس قوم کا کیا تعلق…
شراب جائز ہے جرنیل کے لئے بھی، تمام شو بز کے لئے بھی، سیاستدانوں کے لئے بھی اور عوام کے لئے بھی (تو پھر باقی نشہ آور چیزوں پر کیوں پابندی ہے؟)…
عورت پر پابندی بھی اور ذمہ داری بھی، مردوں کو گھر اور سڑک پر کھلی چھٹی… 
گھروں میں بے حیائی، ننگے پن اور فحاشی سے تہذیب اور اخلاق پر کوئی اثر نہیں پڑتا… تو پھرریپ کا رونا کیوں روتے ہو… 
.
اور پتہ نہیں ایسی ہی کتنی باتیں ہیں… گویا ہر مشہور اور غیر مشہور شخص نے اپنی طرف سے تھوڑے  تھوڑے دھبّے لگاۓ ہوۓ ہیں… چھوٹی چھوٹی باتیں جن کی وجہ سے انھیں افراد کے بڑے بڑے کارنامے بھی بے سود اور غیر موثرہو کر رہ گۓ ہیں… 
.

Prophet Muhammad (pbuh) and Deprivation

‘Mehroomeen’ is the Arabic word used in Qur’an for ‘those who are deprived’.  
“those in whose wealth, there is a known right for petitioner and deprived”… Surah Al-Ma’arij
.
Both petitioners and deprived lack all basic necessities of life.  Petitioners but feel no shame in asking help from people around.  The ‘mehroomeen’ hesitate because they don’t want the world to know about their miserable plight.
.
Now Prophet Muhammad (pbuh) and his companions also suffered the extreme shortage of food, clothes, shelter and power/status.  They never begged, never complained about their inadequacy.  At the same time, they never felt ashamed of their poverty.  people of Makkah and Madinah witnessed them living like an ordinary people, mending their clothes and shoes, laboring for their families, digging trenches, carrying loads.
They mission of life was quite different from what we have now “food, clothes, shelter and high status”.
.
Prophet Muhammad (pbuh) was born an orphan.  He lost his mother at the age of 6, grandfather at the age of 10.  His beloved uncle Abu-Talib and wife Khadijah died when he was facing a severe boycott from his people.  He suffered hunger, thirst and threats.  He was planned to be murdered by Makkans and he had to migrate from his birthplace.  His sons died at infancy.  Once he had to spend a month in Masjid An-Nabwi in protest to his wives.  He fought battles.  He lead a group of people and turned them into a nation.  The Prophet (pbuh)’s life style teaches us that the real deprivation is not lacking basic needs.
.
The real deprivation is the disappointment in the mercy of Allah Almighty and in His authority over all provisions.  The worst feeling of deprivation occurs when a person becomes neglectful even his/her own goodness. 
“Say (Allah says)! O my slaves! who have transgressed against themselves (by sins)! Despair not of the Mercy of Allah…verily, Allah forgives all sins.  Truly, He is Oft-Forgiving, Most Merciful.  And turn in repentance and in obedience with true Faith to to your Lord and submit to Him, before the torment comes upon you, then you will not be helped”… Surah Az-Zumr

“and enjoin prayer on your family and strictly adhere to it, and We do not ask for provision from you, (rather) We provide for you.  And it is fearing God that brings about best results”… Surah Ta-Ha
“and do not follow him whose heart We have made neglectful of Our remembrance – the one who has followed his own desires and his matter has crossed the limits”… Surah Al-Khaf/The Cave
“and be you not like those who forgot Allah; (in return) He made them forget themselves (their own souls)! such are the rebellious transgressors!”… Surah Al-Hasr
 
 
.
میں تو کہتی ہوں کہ “مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے… وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے”…
زندگی تو نام ہی محرومیوں کا ہے… زندگی کی ایک کمی کو دوسری زیادتی سے کیسے پورا کرتے ہیں اور وہ بھی کسی کے ساتھ زیادتی کے بغیر… یہ کمال ہے انسانیت کا اگر کوئی کر کے دکھا دے… 
لہٰذا کوئی کچھ بھی کہے، کتنا ہی تذلیل کرے، کتنے ہی طعنے دے، وقتی صدمہ اور ذلت کا احساس تو ہونا لازمی اور فطری عمل ہے لیکن وہ ایک مستقل احساس محرومی بن کرزندگی کے ساتھ نہیں چل سکتا… کیونکہ یہ بات تو خود ہی ہتھیار ڈالنے، خود ہی اپنے آپ کو دنیا کے لئے مشق ستم بنانے کے لئے پیش کرنا… تواگر انسان خود مطمئن ہے، خود اپنے آپ کو جوابدہی کے لئے تیار رکھے، اپنا دفاع کرنا جانتا ہے… اس کو بھلا کون احساس محرومی میں مبتلا کر سکتا ہے…
اورامیر امراء کی تو عادت ہوتی ہے… دولت اور اختیارات کی زیادتی انھیں انسانیت سے کافی دور کردیتی ہے… اور یہ رویہ جب سے دنیا بنی ہے تب سے ہے اور قیامت تک رہے گی… کوئی نئی بات نہیں… لیکن اصل تغیر اور انقلاب آتا ہے غرباء کے رد عمل سے… 
“اور وہ جن کے مالوں میں مقررہ حق ہے مانگنے والوں اور محرومین کے لئے”… سوره المعارج 
اسلام میں محرومین یقینا انہی لوگوں کو کہا گیا ہے جن کے پاس روٹی، کپڑے، مکان، اختیارات کی حد درجے کمی ہو… انکا حق ہے مسلمانوں کی کمائی میں… جیسے کہ مانگنے والوں کا… بات سمجھ آئی کہ نہیں… محرومین اورسائلوں کے حالات ایک جیسے ہوتے ہیں… لیکن محرومین مانگتے نہیں ہیں…  ان میں احساس محرومی ہوتا ہے اسی لئے انکی محرومین کہ گیا… کیونکہ جس میں احساس محرومی نہیں وہ تو ہاتھ پھیلا نے میں شرم محسوس نہیں کرے گا… لہٰذا محرومین ہاتھ  تو نہیں پھیلاتے لیکن ساتھ ہی اتنے با اعتماد بھی نہیں ہوتے کہ اپنی حالت لوگوں پر ظاہر کریں… اور جو اپنی حالت پر شرمندگی کی وجہ سے خاموش ہو وہ معاشرتی، سماجی اور قومی مسائل میں بھی پیچھے رہتا ہے… آواز اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی اس میں… کسی کے خلاف کھڑا نہیں ہو سکتا وہ….
.
روٹی، کپڑے، مکان اور اختیارات کی کمی تو رسول صلی الله علیہ وسلم اور انکے صحابہ کے پاس بھی تھی بلکہ ان میں سے بہت سے تو زندگی کے آخری سانس تک اس کمی کو پورا نہ کرسکے… تو کیا رسول صلی الله علیہ وسلم اور انکے صحابہ محرومین کہلاۓ؟…. اور مکہ کے سرداروں، امیر امراء نے انکو احساس محرومی میں مبتلاکرنے کی کوشش بھی کی… کیا وہ کامیاب ہو ۓ؟… کیا وہ اپنے فاقے، اپنی غربت، اپنی خستہ حالت لوگوں سے چھپاتے تھے؟… کیا لوگوں نے انھیں باسی روٹی پانی سے کھاتے نہیں دیکھا؟… کیا رسول صلی الله علیہ وسلم اور انکے صحابہ کے کپڑوں پر پیوند نہیں دیکھے گئے؟… کیا مکے مدینے کے عوام انکی محنت مزدوری کرنے، بوجھ اٹھانے، خندقیں کھودنے، بکریاں چرانے کے گواہ نہیں؟…. 
یہ سب روٹی، کپڑے، مکان اور اختیارات کے نہ ہونے کے باوجود نہ صرف محرومین بلکہ معاشرے کے ہر طبقے کے حق میں رحمت بن کر، عدل بن کر، رہنما بن کر کھڑے ہوۓ… کسی کی ملامت انھیں پریشان نہیں کرتی…
.
محرومین کی زندگی کا مقصد تو روٹی، کپڑا، مکان اور اختیارات ہو سکتا ہے… انقلاب لانے والوں کا نہیں… 
محرومین قابل رحم اور قابل عزت ہوتے ہیں… لیکن ان میں اور انقلاب لانے والوں میں بہت فرق ہوتا ہے…
 .
اور محرومی کس بات کی… جانتے ہیں ایک مسلمان کے لئے بڑی بڑی محرومیاں کیا ہوتی ہیں؟
١) سب سے بڑی محرومی اس کائنات کی یہ ہے کہ انسان الله تبارک و تعالی کی رحمت  سے مایوس ہوجاۓ … سوره الزمر میں رب العالمین کا ارشاد ہے…
“کہہ دو! (الله فرماتا ہے) اے میرے بندوں! جنہوں نے ظلم کیا ہے اپنی جانوں پر، مایوس نہ ہونا الله کی رحمت سے… بلا شبہ معاف کردیتا ہے سارے گناہ… یقینا وہ تو ہے ہی معاف فرمانے والا، مہربان… اور پلٹ آؤ اپنے رب کی طرف اور فرمانبردار بن جاؤ اس کے، اس سے پہلے کہ آ جاۓ تم پر عذاب… پھر نہ مدد مل سکے تمہیں کہیں سے بھی…”
٢) جب انسان رزق کے معاملے میں خدا سے مایوس ہو جاۓ، وہ محرومی ہوتی ہے… 
وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں… جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کف جو…علامہ اقبال 
“اور حکم دو اپنے گھر والوں کو نماز کا اور پابند رہو خود بھی… نہیں مانگتے ہم تم سے رزق، ہم تو رزق دیتے ہیں تمہیں… اور انجام کی بھلائی تقوی سے ہے”…. سوره طہ….
٣) محرومی کی ایک اور بدترین صورت وہ ہے جب انسان خود سے غافل ہو جاۓ… اسے یہی نہ معلوم ہو کہ اس کی بھلائی کس میں ہے…
“اور تو اس شخص کی اطاعت نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے, اورہو لیا پیچھے وہ اپنی خواہشات کے اور حد سے بڑھ گیا”… سوره الکھف 
“اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو الله کو بھلا بیٹھے، پھر الله نے ان کی جانوں کو ہی ان سے بھلا دیا (وہ اپنی بھلائی ہی بھول گئے) اور یہی ہیں فاسق log… سوره الحشر 
.
.

Sense of Deprivation – احساس محرومی – Part 2

In Pakistan, ‘sense of deprivation’ seems more like a political strategy than a moral deficit.  Politicians have brain washed people’s mind by using this term over and over in their speeches and statements.  They started with the soft-synonyms “poor, exploited and oppressed” few decades ago.  Their verbal scheme (i.e shouting and choice of words in repetition) has disabled people from thinking process. Over and over and over, things heard and seen become the part of personality.
.
Nation’s sense of deprivation – this strategy of disabling their own people also helps politicians to receive funds from other countries.  I wonder which countries are funding Pakistani government (Zardari and People’s Party) for Benazir Income Support Program, which is an evil planning to increase their bank balances and nothing else.  Nawaz Shareef, in power, despoiled his own people’s money under the title of “loan-free Pakistan”.  Now he is involved in looting millions by distributing laptops.
.
Why am I sure that this is a planning?  That is because I am one hundred one percent sure that our politicians (even educated) are unable to write their own speeches.  They hire people to write it for them or it is given to them written by some hidden hands.  Our politicians can think evil but they are zero in writing skills.
.
Is it only shortage of food, clothing, shelter, high status that causes this feeling of not having anything or missing a news from Bollywood develops this tension?
I haven’t seen anyone sighing for lacking proper education, good leadership, healthy environment, nature, playground, freedom.
With the basic thoughts all corrupted, how can people be trusted to support any revolutionary movement.  When they say it, they don’t mean it.  They just repeat it following the social trend around the world.

انکا زمانہ، انکی عدالت اور انھیں کی تعزیرات… انکا دوست زمانہ سارا، اپنی دوست خدا کی ذات…

پاکستان میں احساس محرومی ایک اخلاقی کمزوری سے زیادہ ایک سیاسی حکمت عملی اور دین کے نام پر ایک ہتھکنڈا لگتا ہے… 
کئی سال پہلے کا ذکر ہے کہ پاکستانی لیڈرز پاکستانی عوام سے خطاب کرتے وقت “غیور، محنت کش اوربہادر”  کے الفاظ استعمال کرتے تھے… پچھلے کئی سالوں میں تمام کے تمام سیاستدان ہر پلیٹ فارم پر پاکستانی عوام کی تعریف کے لئے “غریب، بےبس اور مظلوم” کے الفاظ استعمال کرتے ہیں کیونکہ غیر ملکوں سے لوٹ کھسوٹ کے لئے اسی طرح دولت ملتی ہے… بینظیر کے نام، ذات، عزت اور لاش… سب بیچ کھائی پیپلز پارٹی نے بینظر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر… نواز شریف نے تو قرضہ اتارنے کے نام پر اپنے ہی پاکستانیوں کی جیبیں کاٹ لیں… اوراب لیپ ٹاپ کے فیض عام پر کروڑوں کا غبن…
خود ہی قوم کی مسیحائی کا دعوی لے کر کھڑے ہوتے رہے اور مسلسل قوم کی برین واشنگ کرتے رہے بار بار “غریب، بےبس اور مجبور” کہہ کہہ کر… نتیجہ یہ کہ عوام نے سوچنا ہی چھوڑ دیا کہ وہ کچھ سوچ بھی سکتے ہیں… اور چند مہینوں سے پے در پے “احساس محرومی” کا لفظ استعمال کر کر کے انکی بچی کچھی صلاحیتیں بھی ختم کرنے اور وہیں ذہنی طور پر پیرالا ئز کرنے کی حکمت عملی پر عمل ہو رہا ہے…
مجھے اس بات کا یقین… کہ یہ حکمت عملی ہے، اتفاق نہیں… اس لئے ہورہا ہے کہ ہمارے ہاں سیاست میں کوئی اس قابل نہیں کہ خود اپنی تقریریں لکھ سکے… ظاہر ہے یہ سب کسی سے لکھواتے ہیں… اور جس سے یہ لکھوائیں، وہ انکا چمچہ تو ہو سکتا ہے، اس ملک کا خیر خواہ نہیں… اس کا دماغ کسی اور کے ہی زیر اثر ہوتا ہے… تو تقریرکا متن باقاعدہ سوچ سمجھ کر لکھ کر دیا جاتا ہے… ذرا ان سب کی تقریریں جمع کریں، انکی ٹائم لائن بنیں اور موازنہ کریں… خود ہی بھید کھل جائے گا… 
.
یہ تو ہو گئی سیاستدانوں کی بات… اب دیکھیں کہ عوام کا کیا رویہ ہے… اور عوام سے کسی بھی قسم کے انقلاب کی کیا امید رکھی جا سکتی ہے…
کبھی عوام سے پوچھیں کہ انکے نزدیک “احساس محرومی” کی کیا تعریف ہے… اور وہ کس محرومیوں کا شکار ہیں… 
احساس محرومی روٹی، کپڑا، مکان، کا نہ ہونا ہے؟ احساس محرومی کا تعلق گھرکے دو سو، چار سو، ہزار گز ہونے سے ہے؟ کیا فیشن سے دوری احساس محرومی کو جنم دیتی ہے؟  کیا کسی دن بالی ووڈ کی خبر مس کردینا بھی احساس محرومی کی ایک شکل ہے؟…
کیا کبھی عوام نے میں سے کسی نے یہ کہا کہ اچھی تعلیم کے نہ ہونے سے ہمیں احساس محرومی ہورہا ہے… اچھی لیڈر شپ نہ ہونے کی وجہ سے ہم دنیا میں احساس کمتری کا شکار ہیں… ہمیں قرآن سے دوری جینے نہیں دے رہی اور ہم احساس محرومی سے مرے چلے جا رہے ہیں، حلق سے نوالہ نہیں اتررہا… صاف ستھرا اور صحتمند ماحول نہ ہونے کی وجہ سے ہم خود کو محرومین سا محسوس کرتے ہیں… ہمارے احساس محرومی کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں رنگ برنگے پرندوں کی چہچہاہٹ نہیں سنائی دیتی؟؟؟
.
کسی بھی شخص کو… جو لالچ، بےغیرتی اور کم ظرفی سے پاک ہو… پاکستانیوں کا لیڈر بننے سے پہلے عوام کا رویہ ضرور دیکھ لینا اور سوچ ضرور پڑھ لینی چاہیے… کیونکہ انکی سوچ وہی ایجنڈا ہیں جو انکے ذہنوں میں ٹھونس ٹھونس کر بٹھا دے گئے ہیں اور ہمارے شوبز کے لوگوں نے اس معاملے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے…. اس لئے ہمارے سیاستدانوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ عوام کو کس طرح ڈیل کرنا ہے…
.

Sense of Deprivation – احساس محرومی – Part 1

What urged me to write on this topic is the statement of a politician, “the sense of deprivation in people is causing the demand for new provinces”.  What I say, it is not ‘new provinces’ we are going to make but we are dividing the provinces with many cities into many small size provinces.  Who knows in future, further sense of deprivation would cause further division of citi-sized provinces into town-size and then neighbourhood-size provinces.  I think they were called tribes.  So we will become a tribal society.

.

Deprivation generally means missing some or more necessities of life, lacking physical abilities or mental powers, losing possessions or will to do something, etc.
.
People say that the increase in crime rate is due to deprivation.  According to psychologists, the feeling of deprivation can force people to jealousy, murder, depression and suicide.

What has come into observance, the practical meaning of word ‘deprivation’ in my country is to choose or create a reason or reasons to develop ‘sense of deprivation’, mostly to seek favours or win sympathies from others.  The strong stimuli behind this self-conspiracy is the fear of taking responsibility of actions and decisions.  Everybody wants to stand up proudly saying, “yeah, I know I am a sinful person, but at least I didn’t do this and that……(a long list of good intentions never practiced in real).”  People are in a greed of having everything while losing nothing.  This is an unnatural and evil behaviour.  They never get to realize that they keep losing everything and while getting nothing at the end but regrets and feelings of deprivation.   I hope I made my point clear to myself.  Thank You Lord!
.
As Pakistani society has divided itself into many occupational, status-based, age-wise and religious communities………such as youth, elders, politicians, show-biz, doctors, teachers, nurses, lawyers, journalists, farmers or Defense Area, Cant. Area, Gulshan Area, North Nazimabad Area, Gulberg Area, Model Town Area, Laloo-Khait, Surjani Town, Malir Town, Saudabad, Khokrapaar or Agha Khani Community, Khoja Community, Hindu Community, Christian Community, Memon Community, Dehli-Sodagraan Community, Saadaat Amroha Community, Rizvia Society, etc. (such division among Muslims except for administerial purpose is a kufr)………….. they all have developed their own “sense of deprivation”.
Religious people feel deprived when lose their donors and find themselves helpless for earning by physical work.
Politicians, when don’t get votes, go furious due to depression and go to any extent in revenge from both opposition and people.
Show-biz tycoons indulge into the lust of deprivation when don’t get awards and appreciation or lose fans.
Women are the most deprived part of our society as they are never satisfied with what they have and keep exploiting the term “women’s rights”.
Women love to live alive in a continuous state of depression related to their bodily shape, facial attraction and fashion.
Students convince themselves that they can’t study because of lacking facilities and good educational system.
Elders waste their old age in pushing their children into guilt by reminding the favours they had done to them and for not getting the same return.
Under-privileged think they have all the rights to become a crime-activist and prostitutes as the result of people’s negligence and as the system demands them to be.  The most famous dialogue preached by dramas and movies is, “what has society given to us? now its time to take revenge from society”.

;

قسم سے کہہ رہی ہوں اس ملک کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر کوئی، ہر کوئی، ہر شعبے کا ہر شخص، ہر گھر میں بیٹھا ہوا ہر شخص، اپنی کمیونٹی کی ایک برائی سننے کو تیار نہیں، الٹا اپنے اپنے کنوؤں کے مینڈکوں کے ہر الٹے سیدھے کام کا دفاع کرتے ہیں… ہر ایسی تنقید کو جس سے انکے دل کا چور سامنے آجاۓ  اور انکی تہذیب، روشن خیالی اور ملک و قوم کی خدمت کا پول کھل جاۓ… کہتے ہیں کہ یہ فالتو باتیں ہیں… کام کی باتوں پر توجہ دیں… مطلب کے جو انکے مطابق کام کی بات ہو وہ اہم ہے اور وہی سب کو کرنی چاہیے… واہ! کیا آزادی راۓ اور جمہوریت ہے… مطلب یہ کہ زبان تمہاری، الفاظ ہمارے… ہم تو جیسے پاگل ہیں…
.
اور جب زرداری، الطاف حسین، نواز شریف اور دوسرے سیاسی شیطانوں پر لعنت بھیجی جا سکتی ہے… تو پھر شوبز کے لوگ اور کھلاڑی کس کھیت کی مولی ہیں اور کیوں معصومیت کے ڈھونگ میں انہیں بخشا جاۓ… ارے غلط باتیں ہیں، الزامات ہیں تو دفاع کرو، سچ بتادو سب کو… ورنہ اعتراف کرو…
اور میں ٹھری دل جلی، پاگل، جاہل، خود سر، بد تہذیب اور بدتمیز… ایسی ہی باتیں کرتی رہوں گی جب تک دل چاہے گا… کیسی باتیں.. ایسی… کہ میرے لحاظ سے ملک کے تمام شعبوں کے لوگ برابر کے حساس، منحت کش، سچے، معصوم، ایماندار ہیں… اور سب کا حکومت کے مال پر برابر کا حق ہے… ہر شہری چاہے جس فیلڈ کا ہو برابر ہے… ورنہ سب شیطان یا سب غافل یا سب پاگل اور جاہل…
.
آج بات کرنی ہے میں نے “احساس محرومی” کی…
.
آج تک تو مہنگائی، غربت، جہالت اور دہشتگردی کو سسٹم کی ناکامی کی جڑ بتایا جاتا تھا… آج ایک نیا بیان سنا ایک سیاستدان کا کہ احساس محرومی کی وجہ سے نئے صوبوں کی بات ہو رہی ہے… کوئی کہ رہا ہے کہ احساس محرومی کی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے… یہ تو کہا ہی جاتا ہے کہ احساس محرومی کے وجہ سے ڈپریشن ہوتا ہے… لوگ خود کشی تک کر لیتے ہیں…دوسروں سے حسد کرنے لگتے ہیں یہاں تک کہ دوسروں کو قتل کر دیتے ہیں…
.
احساس تو سمجھ آ گیا… یہ محرومی کیا ہے… اگر محرومی چیزوں کے نہ ہونے کو کہتے ہیں تو اس لحاظ سے تو پاکستان کا ہر شخص خود کو محروم سمجھتا ہے… سب کے اپنے اپنے احساس محرومیوں کے معیار ہیں…
سیاستدانوں کو ووٹ نہ ملیں، مخالف جیت جائیں تو انھیں احساس محرومی ہو جاتا ہے…
دینی لوگوں کو چندہ نہ ملے تو وہ محرومین میں شامل کرلیتے ہیں اپنے آپ کو…
شوبز کے لوگوں کو ایوارڈ نہ ملے، ہزار بارہ سو لوگ تعریف نہ کریں تب تک وہ احساس محرومی کا شکار رہتے ہیں…
خواتین کو انکے من چاہے حقوق نہ ملیں تو انکی محرومی کا احساس انھیں کچھ کرنے نہیں دیتا…
طلبہ طالبات کو سہولتیں نہ ملیں تو احساس محرومی کی وجہ سے پڑھنے سے انکار کر دیتے ہیں…
بزرگوں کی بات نہ مانی جاۓ اور انکو انکے مزاج کے مطابق عزت نہ دی جاۓ تو وہ احساس محرومی سے ہر وقت چڑچڑے ہی بنے رہتے ہیں…
کھلاڑیوں کو موقع نہ ملتا رہے جب تک کہ وہ کبھی نہ کبھی کامیاب ہوکر دکھا دیں، انکا احساس محرومی ختم نہیں ہوتا…
غریب کا احساس محرومی کہ اسکے پاس کچھ بھی نہیں ہے، اسکو ہر قسم کے جرائم پر مجبور کر دیتا ہے…
.
اور ایک نئی بات بھی سامنے آئی کہ اگر کسی کی اصلاح بھی کرو تو اس کو بھی خواہ مخواہ احساس محرومی ہونے لگتا ہے کہ ہاۓ میرا دل توڑ دیا…
.
اگر محرومی معاشرے میں کوئی مقام نہ ہونے نہ پہچانے جانے کو کہتے ہیں کہ آتے جاتے ہر کوئی سلام کوئی کیوں نہیں کرتا… تو پھر یہ خالص شوبز کا ڈپریشن ہے… اور ان لوگوں کا جن کی نظر میں عزت ہوتی ہی وہ ہے جو دوسروں کے تعریف کرنے سے بنے… اسی لئے ہمارے معاشرے کی اکثریت اور خاص کر نوجوان ہر قسم کا کام ہر حد تک کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں… کہ بس لوگ آگے پیچھے بھاگیں، ٹوٹ پڑیں آٹو گراف لینے کے لئے…
.
پچھلے کئی سالوں میں جو نظر آیا پریشان اور بے سکون نظر آیا… جس سے پوچھو کہ کیسے حال ہیں وہ مہنگائی کا رونا رونے لگتا ہے… بیماریوں کی تفصیل بتانا شروع کر دیتا ہے… تھکاوٹ، وقت کی کمی، مایوسی، بیزاری… پہلے تو کچھ دوسروں کے معاملات کی کھوج کرتے تھے لیکن اب تو ایک بھاگ دوڑ سی مچی ہوئی ہے… اور اسکے ساتھ ہی ذرا نظر ڈالیں شاپنگ سینٹرز پر، فاسٹ فوڈ کی دکانوں پر، بوتیک پر، شادی ہالز پر، دن بدن سڑکوں پر بڑھتی ہوئی نئی نئی گاڑیوں پر، مختلف مقاصد کے لئے نکلنے والی ریلیوں پر جن میں اکثر گاڑیاں اور موٹر سائیکلز گلی گلی پھرائی جاتی ہیں… ایک ایک گلی میں چار چار مہنگے اسکولوں پر… آۓ دن ہونے والی شادیاں اور ہر سال پیدا ہونے والے بچے…
.
یہ سب دیکھ کر صرف ایک احساس ہوتا ہے مجھے اور وہ یہ کہ اس قوم کو سب کچھ دے کرجن چیزوں  سے محروم کر دیا گیا ہے اور وہ ہے “سکون، آرام، چین، شکرگذاری، احسان مندی”…
.
احساس محرومی میں غلطی کس کی ہوتی ہے… انکی جو دوسروں کو اپنے سے کم تر جان کر انکو انکی محرومیوں کا احساس دلاتے ہیں… یا انکی جو خود کو احساس محرومی میں مبتلا کر لیتے ہیں…
عوامی سطح پر تو خیر جو اخلاق ہے ہماری ٩٥% عوام کا… عام لوگ اپنے سے نیچے والوں کو حقیر کرتے ہیں اور اپنے سے اوپر والوں سے حقیر ہو جاتے ہیں… لیکن اس میں ایک بہت بڑا اور برا کردار ہمارے سیاسی شیطانوں اور دینی تماشہ بازوں کا بھی ہے… جب اپنے ہی ووٹرز کو روٹی، کپڑا، مکان جیسی بنیادی ضروریات کو زندگی کا مقصد بنا کر پیش کیا جاۓ تاکہ لوگ اپنی چار پانچ فٹ کی ذات اور چند انچ کے پیٹ سے آگے کبھی کچھ سوچ ہی نہ سکے… ایک سے لے کر ہزار کپڑے، میچنگ جوتے، زیورات، صرف اور صرف کھانوں کی انٹرٹینمنٹ اور کھانوں کی پکنک اور پھر زمینوں کے گز بڑھانے کی کوشش…
اور پھر کوئی اور آجاۓ جاہل عوام کو اختیارات کے خواب دکھا نے… یا پھر غیر ملکی ثقافت اور رسموں اور رواجوں کے آئینے میں سکون اور خوشیوں کو تلاش کرنے کی تھیراپیز کرائی جاتی ہیں… دینی جماعتیں اور مذہبی علماء اکثر دنیا کی ہوس نہ کرنے اور دنیا کی آسائشیں چھوڑ دینے کو پریشانیوں سے نجات اور سکون باعث بتاتے ہیں…
.
خیر جو بھی ہے، ایک سوال یہ ضرور پوچھنا چاہیے سب کو خود سے کہ ہمیں کوئی احساس محرومی ہے کہ نہیں؟ اور ہے تو اس کی وجوہات کیا ہیں؟ اور کہیں یہ صرف ناشکری کا نتیجہ تو نہیں… کیونکہ الله ظالم تو نہیں کہ اٹھارہ کروڑ کے اٹھارہ کروڑ کو سزا یا آزمائش میں مبتلا کر دے…
.

“Nothing can undo Pakistan.” – Quaid-e-Azam, 24 Oct, 1947

Those who believe in Pakistan need no logic and no explanation regarding the ideology of Pakistan and its establishment.

They still need to prepare themselves to explain it to those who do not believe in it.

Sometimes, the questions are easy to satisfy others’ queries.  Not always, as some elements are not meant to be productive as they pretend.  They condition their inner satisfaction to ambiguities, chaos and disruption.

I personally came to face such people in my close surroundings.

1) The demand and making of Pakistan was not rightful?

The question has lost its validity on 14 August, 1947.  Those who recall the critics of Quaid-e-Azam only try to justify either their failure in Pakistan or their exit to foreign countries.

2) Did Quaid-e-Azam want to make Pakistan a secular state or Islamic?

This is also not a valid question as Quaid-e-Azam did not create the theory himself.  He adopted the Two-Nation Theory from Allama Iqbal and worked on it.  One must read and understand Allama Iqbal to find the answer of this question.  The people of Pakistan or politicians cannot change it.

3) Indians and Pakistanis shared same culture and traditions so we are same not different?

Allama Iqbal in his presidential address in Allahabad in 1930 stated:

“Let me tell you frankly that, at the present moment, the Muslims of India are suffering from two evils.  The first is the want of personalities. The second evil from which the Muslims of India are suffering is that the community is fast losing what is called the herd instinct. This [loss] makes it possible for individuals and groups to start independent careers without contributing to the general thought and activity of the community.”

In his presidential address 0n 23rd March, 1940, Quaid-e-Azam said, 

“The Hindus and Muslims belong to two different religious philosophies, social customs, and literature[s]. They neither intermarry nor interdine together, and indeed they belong to two different civilisations which are based mainly on conflicting ideas and conceptions. Their aspects [=perspectives?] on life, and of life, are different. It is quite clear that Hindus and Mussalmans derive their inspiration from different sources of history. They have different epics, their heroes are different, and different episode[s]. Very often the hero of one is a foe of the other, and likewise their victories and defeats overlap. To yoke together two such nations under a single state, one as a numerical minority and the other as a majority, must lead to growing discontent, and final. destruction of any fabric that may be so built up for the government of such a state.”

This is natural that when communities live together, they do inspire each other with their living style.  Muslims in India were mostly a convert from the religion of their ancestors.  They did embrace Islam but still being part of the same community, they couldn’t get rid of many rituals and traditions.  They didn’t get a chance to study Islam and understand its teachings.  They mostly relied upon their preachers/maulvis who were invited to resolve matrimonial affairs, such as marriage, divorce, aqeeqah, Bismillah, ameen.  Otherwise their job was to deliver sermon, adhan and teaching Qur’an in mosques or madrasahs.  So people other than that, remained the same as they were before.

So it is not like Hindus and Muslims had the same culture and traditions but Muslims were not aware of the true knowledge of their own religion.  Many Pro-India and moderate Muslims do not  mind it and are inclined more towards Indians than Muslim communities around the world.  As business communities rank financial growth as their first priority, they also avoid to take such issues on serious notes.

4) Why can’t India and Pakistan have friendly ties?

Friendly ties refer to a state of equality and sincerity.  There are so many disputes and grave issues need to be solved before dreaming of friendly terms between the two countries.

UN has failed in convincing India to respect UN Resolution about Kashmiri rights to choose their fate.  There are water disputes and other political issues that need to be resolved.

The idea of trade between two countries and declaring India a favourite nation without concerning how Kashmiris feel about it is a sin for sure.

.

پہلے سوالات تھے کہ پاکستان بننا چاہیے تھا کہ نہیں؟… پاکستان کو سیکیولر ہونا چاہیے کہ نہیں؟…. پاکستانیوں کے ساتھ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟… 
جب انکے سوالات مل گئے تو اب نئے سوالات پیدا ہو گئے… 
بھارت اور پاکستان دوست ہو سکتے ہیں کہ نہیں… ہماری تاریخ ایک ہے… ہماری ثقافت ایک ہے… ہماری روایات ایک ہیں… ہمارا انکا کیا جگھڑا؟… 
کاش اس ملک میں اور اس ملک میں لوگوں کو پڑھنے اور صحیح طرح پڑھنے کی عادت ہوتی… علامہ اقبال اور قائد اعظم تقریبا ہر بات کا جواب دے گئے، کوئی سمجھنا نہ چاہے تو اور بات ہے… اور یہ نہ سمجھنے کی وبا خود کو امن کا داعی سمجھنے والوں، شو بز کے لوگوں اور کاروباری حضرات میں زیادہ پائی جاتی ہے… اور شاید اس میں کوئی بری بات بھی نہیں کیونکہ ان کمیونٹیز میں مالی فائدہ اولین ترجیح ہوتا ہے… اسی لئے وہ اپنا دامن بچاتے ہیں ثقافت اور معاشرت کے فرق کی بحث میں پڑنے سے… 
خیر…. علامہ اقبال کے ١٩٣٠ کے الہ آباد کے خطبۂ صدارت اور قائداعظم کے ٢٣ مارچ ١٩٤٠ کے خطبۂ صدارت پڑھنے سے یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ ہندؤں اور مسلمانوں کے مذہب اور معاشرت میں کتنا فرق ہے… 
بر صغیر میں مسلمان اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر مسلمان ضرور ہوگئے تھے… لیکن اپنا ملک، شہر یا گھر بار نہیں چھوڑے تھے… دینی حضرات یا مولویوں کی ضرورت شادی، طلاق، عقیقہ، بسم اللہ، آمین جیسی رسموں کے وقت پڑتی رہی… یا پھر وہ مسجد میں اذان، جمعہ کے خطبے دیتے یا مدرسوں میں قرآن کی تعلیم… اسکے علاوہ گوشت کھانا شروع کر دیا، پانچ ارکان، وغیرہ… باقی زندگی کے رسم و رواج کافی حد تک وہی رہے… اور جاتے بھی تو کہاں جاتے… 
اس لئے یہ مسلمان بادشاہوں، علماء اور عوام کی غفلت اور غیر ذمہ داری تھی کہ انہوں نے خود کو اسلام کے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کی سمجھ بوجھ سے دور رکھا… اور نتیجتا ہندؤں اور انگریزوں کے ہاتھوں سب گنوا بیٹھے… 
اگر مسلمان اور ہندو ایک جیسے ہوتے اور خوش تھے تو اتنی بڑی خونی تاریخ لکھنے کی ضرورت نہ ہوتی…. خود عوام ہی اقبال اور قائد کے خلاف ہو جاتی…. 
.

.

Urdu! Pakistan Salutes You! تجھے پاکستان کا سلام اردو

The title is adopted from the poem on Urdu “tujhay nahi sadi ka salam Urdu/the new millennium salutes you, O Urdu”  by an Indian poet and Urdu lover Ms. Haya Lata.

Urdu is the national language of Pakistan.  It is our national symbol and our identity.  National language is not a threat to any provincial or local language.  It is a source of communication and it fills linguistic gap among communities speaking different languages.  

Urdu is well-spoken and understood in India too.  Both India and Pakistan share the history of Urdu and literature as well.

Those who do not value their national language and actually try people to divert from it are the enemies of nation. 

The history of Urdu is available on internet.  Thousands of  Urdu websites are there to entertain the lovers of Urdu language and share their favourite poetry, excerpts, opinion or discussions.  Some of them are really impressive

But their participants are very few.

Today we complain that our new generation is too negligent towards their values, tradition and history.  All these things are either learned through books or passed by the elders in the family. 

How are children going to learn traditions, values and history when they are not given time to spend time with their elders and/or read books?

Teachers in schools and colleges can’t do anything about learning and reading Urdu unless parents show their interest and develop interest in their children too.  

.

اردو پاکستان کی قومی زبان… قومی زبان کسی بھی صوبائی یا علاقائی زبان کے لئے خطرہ نہیں ہوتی… بلکہ ملک میں مختلف زبانیں بولنے والی قوموں کے لئے رابطے کا کام انجام دیتی ہے… قومی زبان کی وجہ سے ملک کے لوگ ایک دوسرے کے لئے اجنبی نہیں رہتے… 
ارود تو ویسے بھی صرف پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی بولی،  سمجھی اور لکھی جاتی ہے… کیونکہ اس کی شروعات انہی دونوں ملکوں میں ہوئی… 
.
جو عناصر قومی زبان کی اہمیت ختم کرنے میں آگے آگے ہوتے ہیں، وہ اصل میں قومی یگانگت کے دشمن ہوتے ہیں اور عوام کو ایک دوسرے سے دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں…

آج ہم اپنی نئی نسل کے گمراہ ہو جانے کا شکوہ کرتے ہیں… انکے اور انکے والدین اور بزرگوں کے درمیان جو دوری اور بیگانگی ہے اس کا رونا روتے ہیں… شکایات کرتے ہیں کہ نئی نسل کو تہذیب اور روایت کا علم نہیں، انہیں اپنی تاریخ نہیں معلوم….

تاریخ، تہذیب، روایات، یا تو کتابوں میں تحریر ہوتی ہیں یا پھر بزرگ اپنی اولادوں کو منتقل کرتے ہیں… مثال کے طور پر اگر کوئی اپنے بچوں سے صحیح اردو نہ بولے، انھیں انگلش کے سحر میں مبتلا کر دے، انھیں اتنا وقت ہی نہ دے کہ وہ بزرگوں کے ساتھ بیٹھ سکیں اور ان سے کچھ سیکھ سکیں… تو پھر کس بات کا گلہ اور کس سے… اور کیوں الزام حکومت پر اور نظام پر لگائیں… جب سارا قصور اپنا ہو…
کیوں نہیں ہم اپنے بچوں کو ارود میں لوریاں دیتے، کہانیاں سناتے… کیوں ان کو شعرو شاعری کا شوق نہیں دلاتے… شعرو شاعری تو گفتگو کا ایک فن ہے… 
.
صبح کا پہلا پیام اردو
ڈھلتی ہوئی سی جیسے شام اردو
اتریں جاں تارے وہی بام اردو
بڑی کمسن  گلفام اردو 
جیسے نئے سال کا یہ دن ہو نیا
اور بیتے سال کی ہو آخری دعا 
نیا سال نئی  رام رام اردو 
تجھے نئی صدی کا سلام اردو
مجھے تو یہ امی کے دلار سی لگے
اور میرے ابو جی کے پیار سی لگے
بڑے بھائی کی یہ پھٹکار سی لگے
چھوٹی بہنا کی یہ پکار سی لگے
میرے لئے دوستوں کی دوستی سی یہ
دشمنوں کی پیاری پیاری دشمنی سی یہ
جیسے رشتوں کا ایک جام اردو
تجھے نئی صدی کا سلام اردو 
کبھی محبوبہ یہ ادب کی لگے
بات کرے اپنی تو سب کی لگے
قوم کی لگے نہ مذھب کی لگے
مجھے یہ زبان جیسے رب کی لگے
جو یہ کہتے ہیں زبان غیر ہے
انکے دلوں میں تو فقط بیر ہے
جاہل دیں تجھے الزام اردو
تجھے نئی صدی کا سلام اردو
یہیں پے ہے جنمی، یہیں پہ ہے پلی
یہیں پہ جوان ہوئی پھولی و پھلی
یہیں کا ہے پھول یہ یہیں کی ہے کلی
خشبووں کی ڈولیوں میں بیٹھ جو چلی
چاہے پیا کا ہو گھر پردیس میں
پیھر تو اس کا ہے اس دیس میں
تجھے چاہے ہند کی عوام اردو
تجھے نئی صدی کا سلام اردو
بن تمھارے محفلوں میں نور نہیں ہے
شاعری کی مانگ میں سیندور نہیں ہے
شعرکوئی جیسے مشہور نہیں ہے
ہو کے با ادب بھی شعور نہیں ہے
تجھے قطعات اور رباعی کی قسم 
رکھنا مجاز میں یہی تو دم خم 
تیری ہی تیری ہے غلام اردو
تجھے نئی صدی کا سلام اردو 
کیا بتاؤں یہ زباں ہے میرے لئے کیا
سر پہ رکھا ہو جیسے دست خدا
جیسے مل جاۓ مجے آپ کی دعا 
شہرتوں نے جیسے مجھے ہولے سے چھوا
میرا خاندان پہچان ہے یہی
میری آن بان اور شان ہے یہی
آ ۓ میرے کام ہر گام اردو 
تجھے نئی صدی کا سلام اردو 
اور بھی عظیم اور مہان تو بنے 
اور بھی حسین اور جوان تو بنے 
دل بنے کسی کا ایمان تو بنے
کسی کا خدا یا بھگوان تو بنے
اور کیا دعائیں دوں میں تجھ کو سکھی
میں تو خود تیری ہی پناہ میں پلی
اور ہو جہاں میں تیرا نام اردو
تجھے نئی صدی کا سلام اردو
.

As a matter of fact, Pakistan is the matter of Faith.

.
1-10 Hijri – Prophet Muhammad (pbuh) said, “I feel cool breeze coming from Hind.”  

1867 – Sir Syed Ahmed Khan said, “It was now impossible for Hindus and Muslims to progress as a single nation.”

1930 – Dr. Muhammad Iqbal said, “I therefore demand the formation of a consolidated Muslim State in the best interest of India and Islam.  For India, it means security and peace resulting from an internal balance of power; for Islam, an opportunity to rid itself of the stamp that Arabia Imperialism was forced to give it, to mobilize its law, its education, its culture, and to bring them into closer contact with its own original spirit and with the spirit of modern times.”
.
23rd March, 1940 
Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah said, ” The Hindus and the Muslims belong to two different religions, philosophies, social customs, and literature.  It is quite clear that Hindus and Muslims derive their inspirations from different sources of history.  They have different epics, their heroes are different, and they have different episodes.  Very often the hero of one is foe of the other, and likewise, their victories and defeats overlap.  To yoke together two such nations under a single state, one as a numerical minority and the other as a majority, must lead to growing discontent and the final destruction of any fabric that may be so built for the government of such a state.”   
.
The statement of Pakistan Resolution (Lahore Resolution) said, “No constitutional plan would be workable or acceptable to the Muslims unless geographical contiguous units are demarcated into regions which should be so constituted with such territorial re-adjustments as may be necessary.  That the areas in which the Muslims are numerically in majority as in the North-Western and Eastern zones of India should be grouped to constitute independent states in which the constituent units shall be autonomous and sovereign.  
That adequate, effective and mandatory safeguards shall be specifically provided in the constitution for minorities in the units and in the regions for the protection of their religious, cultural, economic, political, administrative and other rights of the minorities.”
.

Pakistan (Lahore) Resolution was drafted by Sir Sikandar Hayat Khan, Chief Minister of Punjab.
It was read by Maulvi Abul-Kasim Fazlul Huq, Chief Minister of Bengal and was seconded by Chaudhry Khaleeq-uz-Zaman.
It was accepted by Maulana Zafar Ali Khan from Punjab, Sardar Aurangzeb from North-West Frontier Province (now Khyber Pakhtunkhwah), Sir Abdullah Haroon from Sindh, Qazi Esa from Baluchistan.  
……………………………………………………………………………………………………………………………………..
.
23rd March is called “Pakistan Day” because on this day Lahore Resolution was unanimously acknowledged by the leaders of Bengal, Baluchistan, Punjab, Sindh and North-West Frontier Province as the legal declaration for a separate Muslim state. 
.
This resolution is based upon the Two-Nation Theory (TNT) presented by Dr. Muhammad Iqbal, which actually is the reinforcement of the Qur’anic concept of Muslims as a distinguished nation among world communities.  Kalimah Tayyabah (the pure declaration) “There is no deity but Allah, Muhammad is the messenger of Allah” is the soul of this theory which is an incentive sufficient to unite Muslims for the cause of Islam.
.
The prophecy of Prophet Muhammad (pbuh) gradually developed into an idea, a theory, a statement, a demand, a campaign/movement and finally into a state called Pakistan.  At this point, from achievement to identity and from liberty to responsibility for all Pakistanis.  The idea behind making of Pakistan is similar to the state of Madinah and in that relevance Pakistan has already initiated the process of global domination of Islam.  In making of Pakistan, the world has witnessed that the ‘Victory of Makkah’, as peaceful and unarmed as it was, is possible in any era.  Yet, the struggle to defend it is as bloody as it could be for any promised piece of land.  
.
May God Bless Pakistan!  Ameen
.
٢٣ مارچ یوم پاکستان کہلاتا ہے کیونکہ ١٩٤٠ میں اسی دن بنگال، سندھ، بلوچستان، پنجاب اور سرحد کے رہنماؤں نے متفقہ طور پر نہ صرف علامہ اقبال کے دو نظریے کی بنیاد پر تیار کی گئی قرار داد لاہور کو پاس کیا بلکہ قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اس پر عمل کرنے کا بھی عہد کیا… علامہ اقبال کا دو قومی نظریہ اصل میں اعادہ ہے قرآن کے اس تصور کا کہ مسلمان دنیا کی ہر قوم سے مختلف اور منفرد ہے… اور کلمہ طیبہ “نہیں کوئی عبادت کے لائق سواۓ الله کے، محمد الله کے رسول ہیں” اس نظریہ کی روح ہے… جو کہیں کے بھی مسلمانوں کو کسی مقصد کے لئے متحد کرنے کے لئے کافی ہے… 
رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا… “مجھے خطہ ہند سے ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں”… آپ صلی الله علیہ وسلم کے ان الفاظ نے ایک نیک شگون سے، ایک خیال، ایک نظریہ، ایک اعلان، ایک مسودے، ایک قرار داد، ایک مطالبے، ایک تحریک اور با الآخر ایک خطہ زمین کی شکل اختیار کر لی جو پاکستان کہلایا… قیام پاکستان کے ساتھ ہی یہ نظریہ، کامیابی سے شناخت اور آزادی سے ذمہ داری بن گیا… قیام پاکستان اور خلافت مدینہ کا محرک اور محور یہی نظریہ ہے… اور اس لحاظ سے پوری دنیا میں اسلامی خلافت کی طرف اٹھنے والا پہلا قدم… قیام پاکستان کی صورت میں ساری دنیا کو یہ یقین جو جانا چاہیے کہ خلافت مدینہ اور فتح مکہ جیسے عظیم اور غیر مسلح معرکے آج چودہ سو سال بعد بھی قابل عمل ہیں… البتہ انکی حفاظت اور انکا دفاع بھر پور مسلح  طاقت کے بغیر ممکن نہیں..ا 
پاکستان کوئی عام ملک نہیں… پاکستان کے دفاع اور اس کی ترقی کی ذمہ داری ہر نسل کے ہر شخص پرعائد ہوتی ہے… بالکل اسی طرح جس طرح باقی زندگی کے کام… پچھلے چودہ سو سالوں میں دنیا کا ہر عقیدہ، ہر نظریہ، ہر نظام اور ہر قرارداد آزمائی جا چکی ہے سواۓ اسلام کے… آج ساری دنیا کی نظریں پاکستان کی طرف اٹھی ہوئیں ہیں… بہت سی دشمنی میں، کچھ حیرت میں اور کچھ سوالیہ نشان بن کر… کہ پاکستان ان شخت ترین حالات سے کیسے نمٹے گا… اندرونی طور پر جرائم، جہالت، غفلت اور بیرونی مداخلت اور دشمنی… اور یہی چیلنج ہے آج کے ہر پاکستانی کے لئے… 
یہ صحیح ہے کہ دشمنوں کو اندر تک رسائی سیاست دانوں اور غداروں نے دی… لیکن اس سے بڑی اور بری حقیقت یہ ہے کہ وہ غدار چاہے کسی محکمےمیں ہوں،  ہمارے ہی عام گھروں اور خاندانوں کے لوگ تھے جن کو ہم نے نظر انداز کیا… اور دشمن تخریبی کاروائیوں کے لئے ہمارے ہی درمیان گھومتے پھرتے ہیں… نہ ہم آج تک انھیں پہچان سکے اور نہ انکے خلاف حکمرانوں کو کسی اقدام پر مجبور کرسکے… یہ ہماری غفلت اور نا اہلی ہے… اسی کو جہالت کہتے ہیں اور یہی سب سے برا جرم بھی ہے…
الله پاکستان کی حفاظت فرماۓ… آمین 
.

“The Candle and The Poet” – شمع اور شاعر

Lahore Resolution was presented and passed by Quaid-e-Azam Mohammad Ali Jinnah, in a three-day session organized by All India Muslim League on 23rd March, 1940, at Munto Park, Lahore.

Later on, the resolution was called Pakistan Resolution.  Munto Park became Iqbal Park.  All India Muslim League got the name  Pakistan Muslim League.  As a memorial of that event, a tower named Minar-e-Pakistan was built at the place where the session was held.
Pakistan Resolution is based on the Two-Nation Theory (TNT), which in simple words can be defined as Muslims are a distinguished nation.
In fact, the idea behind Pakistan Resolution was to find the peaceful and logical solution of a century long dispute between Muslims and other nations in the Sub-Continent.  It wasn’t a complete vision but the part of which he mentioned in a poem “The Candle and The Poet” in February 1912.
.
Look into my breast for the secret of this fiery music
Look into heart’s mirror for destiny’s manifestation!
The sky will shine mirror-like with the morning’s light
And the night’s darkness will be speeding away!
The hearts will again recall the message of prostrations
The foreheads will become acquainted with the Harem’s dust
Whatever the eye is seeing cannot be described by the lips
I am lost in amazement as to what the world will become!
The night will eventually disappear by sun’s appearance!
This garden will be filled with the Light of Tawheed!
.
 It was the time when the World War I hadn’t started yet, the Ottoman Caliphate wasn’t abolished and no one had had the idea of a separate Muslim country in the Sub-Continent.  The Muslims, however, were struggling hard for their social, legal, economical and political rights.  So the vision he described in this poem was not for Pakistan but for the entire region and interprets few prophecies of Prophet Muhammad (pbuh) about global Islamic Caliphate.
It hasn’t come true yet.  God knows the strategy He would use to make it come true.
.
٢٣ مارچ ١٩٤٠ کو منٹو پارک لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے میں قرار داد لاہور پیش کی گئی… پاکستان بننے کے بعد قرارداد لاہور کو قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا… منٹو پارک کو علامہ اقبال پارک کہا جانے لگا… آل انڈیا مسلم لیگ، پاکستان مسلم لیگ بن گئی… اور جس جگہ یہ جلسہ ہوا تھا وہاں مینار پاکستان کے نام سے ایک عمارت تعمیر کر دی گئی… جو اس تاریخی واقعے کی یاد گار ہے…
قرار داد پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ ہے… صاف لفظوں میں مسلمان قوم کا کسی بھی دوسری قوم سے مختلف ہونا… اور اس مختلف ہونے کی تفصیل قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک انٹرویو میں بیان کر دی ہوئی ہے… 
.
راز اس آتش نوائی کا میرے سینے میں دیکھ
جلوۂ تقدیر میرے دل کے آئینے میں دیکھ
آسمان ہوگا سحرکے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جا ۓ گی
 پھر دلوں کو یاد آ جا ۓ گا پیغام سجود ہ 
پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جا ۓ گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جا ۓ گی 
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے 
یہ چمن مامور ہوگا نغمۂ توحید سے  
.
یہ شعر “شمع اور شاعر” کا حصّہ ہیں جو علامہ اقبال نے فروری ١٩١٢ میں لکھی… ١٩١٢ تک نہ پہلی جنگ عظیم ہوئی تھی، نہ سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تھا، نہ مسلمانوں کی الگ ریاست کا خیال کسی کو آیا تھا… البتہ بر صغیر میں مسلمانوں کے سیاسی، معاشی، قانونی اور سماجی حقوق کی جنگ لڑی جارہی تھی… ان حالات میں یہ نظم پاکستان کے نہیں بلکہ بر صغیر کے بارے میں علامہ اقبال کی سوچ اور بصیرت کو ظاہر کرتی ہے… یہ نظم علامہ اقبال کا وہ وژن ہے جو رسول صلی الله علیہ وسلم کی اسلامی خلافت ارضی کی پیشنگوئی کی ترجمانی کرتا ہے اور اس پورے خطے کے بارے میں ہے اور ابھی تک پورا نہیں ہوا…
.
شاید جس طرح معاملہ چل رہا تھا انگریزوں کے ہوتے ہوۓ یہ پورا ہو بھی نہیں سکتا تھا… اسی لئے اس کا پہلا حصّہ ١٤ اگست ١٩٤٧ کو پاکستان کی صورت میں قائدا عظم کے ہاتھوں وجود میں آ چکا ہے… باقی کے لئے قدرت کی کیا حکمت عملی ہے، کتنے حصّوں میں ہوگا اور کس کس کے ہاتھوں اور کیا صورت ہوگی اس کی… یہ سب باتیں الله کو معلوم ہیں…
.

پہلی جنگ عظیم ٢٨ جولائی ١٩١٤ سے ١١ نومبر ١٩١٨ تک یعنی چار سال جاری رہی… جنگی فریقین دو حصّوں میں تقسیم ہو گئے… اتحادی افواج میں برطانیہ، فرانس، روس، اٹلی، جاپان، ہندوستان اور امریکہ تھے… انکے مقابل مرکزی طاقتیں تھیں جن میں جرمنی، آسٹریا-ہنگری، سلطنت عثمانیہ اور بلغاریہ شامل تھے… اس جنگ کا انجام یہ ہوا کہ اتحادی افواج جیت گئیں… کڑوڑوں انسانوں کی جانیں گئیں، زخمی ہوۓ، بے گھر، بے وطن ہوۓ… پرانی سلطنتیں اور بادشاہتیں ٹوٹ کر نئے ملک بنے یا فاتح افواج کی کالونیاں بن گئے…
.
پہلی جنگ عظیم کی جوبھی وجوہات تھیں، ان میں ایک یقینا سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کر کے اس کے حصّے بخرے کر کے مسلمانوں کو ہر لحاظ سے برباد کرنا تھا… اور سلطنت عثمانیہ کو خلافت اسلامیہ کہنا غلط ہوگا کیونکہ دنیا کے بہت سے مسلمان علاقے تو ان میں شامل نہیں تھے… مغل بادشاہوں کا بھی ان سے کوئی تعلق نہیں تھا… البتہ عام مسلمان ضرور انکے لئے ہمدردی کے جذبات رکھتے تھے… جس اسلامی خلافت کی بنیاد رسول صلی الله علیہ وسلم نے پہلی سنہ ہجری میں مدینے میں ڈالی تھی وہ تو حضرت علی رضی الله عنہ کی شہادت کے ساتھ ختم ہو گئی تھی… اسے واپس لانے کے لئے تو حضرت امام حسین نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا… لہذا کربلا کے بعد ایک منظم فلاحی اور متحد اسلامی قوت کا تصور ختم ہونے لگا تھا… کچھ خلیفہ اور بادشاہ دینی مزاج کے ضرور آۓ لیکن وہ بھی کسی متحد قوت اور فلاحی اسلامی ریاست کی بنیاد نہ ڈال سکے… خلافت راشدہ والا انداز کسی کا نہیں تھا…
.
بحرحال مسلمانوں کے زوال کی جو بھی وجوہات تھیں… ٢٩ اکتوبر ١٩٢٣ میں ترکی قائم ہوا اور ٣ مارچ ١٩٢٤ کو ترکی کے صدر مصطفے کمال پاشا نے  باقاعدہ طور پر سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کیا… اس سلطنت میں ویسے ہی کچھ جان نہیں تھی… مغلیہ سلطنت زوال پزیر ہو چکی تھی… برصغیر کے مسلمان جو پہلے ہی ١٨٥٨/١٨٥٧ کے مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد جنگ و جدل اور انگریزوں اور ہندوؤں کے مظالم کا شکار تھے… تحریک خلافت میں بھی شامل ہو گئے… گویا سارے جہاں کا درد انہوں نے اپنے جگر میں سمو لیا تھا…
.
کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ نعرہ پاکستان یعنی “پاکستان کا مطلب کیا، لا الہٰ الا الله” کے وجود میں آنے اور برصغیر کے مسلمانوں میں ہندوستانی قومیت سے ہٹ کر ایک اسلامی پہچان پر زور دینے کے پیچھے کافی ہاتھ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کا بھی تھا… شاید بر صغیر کے مسلمان پاکستان کی شکل میں ایک طاقتور اسلامی ریاست ہی نہیں بلکہ اسلامی خلافت کی ایک جھلک بھی دیکھنا اور دنیا کو دکھانا چاہتے تھے… 
.
مسلمان غلامی پر رضامند رہ نہیں سکتے… اس لئے ایک آزاد اسلامی ملک شاید دنیا کے ہر مسلمان کی خواہش ہوگی… مسلم دنیا میں ١٩٢٤ کے بعد جو حالات ہو ۓ ہیں اور جو انقلابات آ ۓ ہیں چاہے جہادی، چاہے علمی… انکا نتیجہ عوامی بیداری کی صورت میں نکلا ہے… وہ عوام جو کربلا کے واقے کے وقت کہیں سو گئی تھی، جاگتی جا رہی ہے… سارے مسلم مملک کا تو نہیں پتہ… لیکن ترکی کی ہی مثال سامنے ہے جو ملک سیکیولرزم کی بنیاد پر قائم ہوا آج اسلامی شریعت پر چلنے کی کوشش کر رہا ہے… اور یہ اس شریعت سے مختلف ہے جو سلطنت عثمانیہ کے وقت وہاں نافذ تھی… مصر، یمن، تیونس، لیبیا، بحرین میں بھی عوامی انقلاب بھی جنم لے چکے ہیں… اور کیا پاکستان میں جو کچھ ہو نے جا رہا ہے کیا مغلیہ سلطنت کے قوانین سے مختلف نہیں… اور جو کچھ مغربی طاقتیں اور اپنے غدار مل کرکر رہے ہیں اس سے یہ اندازہ نہیں ہو جاتا کہ یہ سب آخر کیوں اتنی محنت کر رہے ہیں، کس چیز کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں…     
.
خلافت ارضی کی باتیں بھی اس وقت ترکی، پاکستان اور چند اور ممالک میں زیادہ زور پر ہیں…  پاکستان میں یہ باتیں دینی لوگ ہی زیادہ کرتے ہیں… اس لئے انکو ہی پاکستان کے عوام کو اور دنیا کو یہ سمجھانا پڑے گا کہ نفاذ شریعت اور اسلامی خلافت ارضی کا مطلب کیا ہے… پاکستان کا اس میں کیا کردار ہے… سارے کے سارے پاکستان کو مطمئن کے بغیر اسلحے کے زور پر تو وہ یہ کام کر ہی نہیں سکتے…
وہ اسلامی خلافت ارضی جس کو ہر فرقے کے مولوی اپنے طریقے سے پاکستان میں نافذ کرنا چاہ رہے ہیں، کیا اسی طریقے سے دنیا پر نافذ کر پائیں گے؟
اور کیا اسلامی خلافت ارضی صرف مولویوں کی ذمہ داری ہے، جبکہ پاکستان کا کوئی مولوی اور عالم اس قابل نہیں لگتا کہ اسے بین الاقوامی تعلقات اور مسائل کی سمجھ ہو… یا کم از کم اسلامی ممالک سے ہی کوئی عوامی، لسانی، سماجی، معاشی روابط ہوں؟ کیونکہ خلافت ارضی کے لئے مختلف زبانیں بولنے والے مسلمانوں کو تو اکٹھا کرنا پڑے گا، کیا حکمت عملی ہوگی…. 
اپنے فرقے اور عقیدے کی حد تک ہی سہی… کیا انہوں نے کوئی مضبوط معاشی، فلاحی اور علمی نظم قائم کیا ہے جو خلافت راشدہ سے ملتا جلتا ہو… جب اتنے چھوٹے پیمانے پر نہیں کر سکے تو قومی اور بین الاقوامی سطح پر کیسے کریں گے؟
کیا پاکستان میں دینی لوگ شریعت کے نفاذ کے بعد ہر انسان کو برابری کی سطح پر بنیادی حقوق دے سکتے ہیں؟ اگر ہاں تو پھر ابھی کیوں نہیں اس کا مظاھرہ کرتے؟ 
.

Wine

“They ask you concerning wine and gambling. Say: “In them is great sin, and some profit, for men; but the sin is greater than the profit.”  Surah Al-Baqarah/The Cow 219

“You who believe intoxicants and gambling, (dedication of) stones, and (divination by) arrows, are an abomination, of Satan’s handiwork: eschew such (abomination), that you may prosper….. Satan’s plan is (but) to excite enmity and hatred between you, with intoxicants and gambling, and hinder you from the remembrance of Allah, and from salah (prayer): will you not then abstain?” Surah Al-Maidah /The Table Spread 90-91

.

Definition of any intoxication according to Qur’an:

1-  Drinking wine is a sin.  (The definition of sin is disobedience/deliberate violation/transgression/offense to Divine laws)

2- Drinking wine has some profits too but less in proportionate to sin.  

3- Drinking wine/intoxication is an abomination.  (The definition of abomination is detestation/abhorrence/disliked)

4- Wine is Satan’s handiwork.   

5- Wine/intoxication develops feelings of hatred among humans.

6- Wine/intoxication creates enmity among humans.

7-  Wine/intoxication stops from salah (five obligatory daily prayers)

8- Wine/intoxication hinders/obstructs from remembering Allah (SWT).

.

THOSE WHO CLAIM “DRINKING WINE” IS NOT PROVEN HARAM (PROHIBITED) FROM QUR’AN:

I am not quoting the ahadith (words of Prophet Muhammad (pbuh)) as many Muslims have issues on their authenticity.  I say sorry to my Prophet (pbuh) for that.  But no Muslim would have a doubt on the words of Qur’an.  The above verses have no words that are difficult to understand.  

Allah (SWT) is free of all needs, likes and dislikes.  Nothing can cause profit and loss to Him.  He Almighty doesn’t want us to drink wine or to be intoxicated.  If I am not a complete fool, I did not read the words like a straight order, “don’t drink wine or wine is prohibited on you”.  I only read the words as “drinking wine is a sin”.  Sin in simple words is “doing something that God doesn’t want us to do OR not doing something that God has told us to do.  

So, the condition to abstain from wine/intoxication is not based upon logically proved advantages or disadvantages of wine but the obedience or disobedience of God Almighty.  Even then, Allah (SWT) has mentioned few disadvantages, if people do care about them.

Drinking wine is a matter of faith.  Unfortunately in Pakistan, it is not considered a sin at government, elite or any level.  Drinking wine is crime, only if poor people are hospitalized and report it to police.  Not even those who don’t drink wine talks about it.  

.

الله اور اسکے رسول صلی الله علیہ وسلم کی قائم کو ہوئی حدود کو توڑنا گناہ کہلاتا ہے… انسانوں کے بناۓ ہوۓ قوانین کو توڑنا جرم کہلاتا ہے… اور جرم کی تعریف یہ رکھی ہے کہ وہ عمل جو دوسرے انسان کو نقصان پہنچاۓ یا اس کے ساتھ زبردستی اسکی مرضی کے خلاف کیا جاۓ… اور انسانوں کو نقصان پہنچنے اور زبردستی کرنے کے عمل کو ہی گناہ کا درجہ بھی دے دیا گیا ہے… اور یہ یقین بھی کر لیا گیا ہے کہ کل دین اور مقصد حیات یہی ہے…  
.
شراب، زنا با الرضا، جوا، عریانی و فحاشی، سود، سور، مردار…. ذاتی پسند اور نا پسند ہے اور بنیادی حقوق…. جس کو برا لگے اپنی آنکھیں بند کر لے… الله سبحانہ و تعالی کی ذات اس سارے قصّے میں کہاں ہے… الله سے انسانوں کا تعلق صرف اتنا رہ گیا ہے کہ خدا انسان کی بغاوتوں کے باوجود بس دیتا ہی رہے اور انسان اسکے احکامات کی دھجیاں اڑاتا رہے… یہ اسکا ذاتی معاملہ ہے…
.
“اور تم سے پوچھتے ہیں حکم شراب اور جوۓ کا… تو کہو، ان میں گناہ بڑا ہے، اور فائدے بھی ہیں لوگوں کو… اور انکا گناہ فائدے سے بڑا ہے”… سوره البقرہ ٢١٩ 
“اے ایمان والو! یہ جو ہے شراب اور جوا اور بت اور پانسے، گندے کام ہیں شیطان کے، سو ان سے بچتے رہو، شاید تمہارا بھلا ہو”… سوره المائدہ ٩٠ 
“شیطان یہی چاہتا ہے، کہ ڈالے تم میں دشمنی اور بغض، شراب سے اور جوۓ سے، اور روکے تم کو الله کی یاد سے اور نماز سے، اور پھر اب تم باز آؤگے”…. سوره المائدہ ٩١ 
.
کئی سالوں سے آۓ دن کچی شراب اور زہریلی شراب کے پکڑے جانے کی خبریں سن سن کر تںگ آ گئی ہوں… شراب پکڑ لیتے ہیں، پی پلا کرانکی خالی بوتلیں چھوڑ دیتے ہیں… شراب والے ان میں شراب بھرکر دوبارہ بیچنا شروع کر دیتے ہیں… غریب اسے پیتے ہیں، ہسپتال جاتے ہیں اور اکثرمرجاتے ہیں… پولیس میں رپورٹ کرائی جاتی ہے… پولیس والے پھر شراب پکڑ لیتے ہیں… اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے…. یہ کاروائی صرف غریبوں کے لئے ہوتی ہے جن کے دماغوں میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ شراب غموں کو بھلا دیتی ہے… محبوب روٹھ گیا تو شراب پینا شروع کردو… بھئی ایک انسان گیا سو گیا، اس میں الله کے قوانین توڑنے کی کیا ضرورت ہے… حالات خراب ہیں شراب پینا شروع کردو… تو کیا اس سے حالات ٹھیک ہو جاتے ہیں…
.
ہاں امیروں کو کوئی اس لئے نہیں پکڑتا کیونکہ انہوں نے شراب کو حلال کر رکھا ہے… وہ شراب غموں کو بھلانے کے لئے نہیں بلکہ خوشیوں کا لطف بڑھانے کے لئے پیتے ہیں… بہت سوں کو یہ غیر مسلموں میں اپنا مقام اعلی بنانے کے لئے پینی پڑتی ہے… اور کچھ لوگوں کی فطرت ہوتی ہے کہ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی حدود توڑیں… اور پھر امیرامراء جس طرح بھی مریں، شراب کی عزت پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتے، نہ اس کے خلاف پولیس میں رپورٹ کرتے ہیں… وہ شراب کی عزت کرتے ہیں اور پولیس انکی….
.
دیکھیں نہ سارے سیاستدان، حکمران، جرنیلز، اداکار، گلوکار، شاعر، فنکار، اعلی عہدیداران… کون ہے جو پاکستان میں شراب نہیں پیتا… انکی تو تصویریں بھی شراب پیتے ہوۓ اخباروں میں چھپ جائیں، ٹی وی پر آجائیں تب بھی انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شراب امیروں کی عیّاشی ہے مجبوری نہیں… مزے کی بات کہ جو لوگ شراب نہیں پیتے یا پینا چھوڑ چکے ہیں وہ بھی دوسروں کے پینے کو برا نہیں سمجھتے اور نہ اسکے خلاف آواز اٹھاتے ہیں… 
.
اگر کوئی ایک ایسا نکتہ ہے جہاں امیراورغریب ایک ہی جیسا رویہ اختیار کریں تو وہ ہے شراب… قرآن سے ثابت ہونے یا نہ ہونے کو تو الگ کر دیں… اگر انسان کی تہذیب اور نفاست کے تقاضوں کو ہی سامنے رکھ لیں تو کون نفیس انسان ایسا ہو گا جو گلی سڑی بدبودار چیز کو ہاتھ لگانا بھی پسند کرے گا… اور وہ بھی لطف لینے کے لئے… شراب پینا توخود ایک ذہنی اورنفسیاتی بیماری کی علامت ہی نہیں بلکہ اس آدمی یا عورت کے قوت ارادی کمزور ہونے کی نشانی بھی ہے…. کیونکہ گندگی اور غلاظت کو کھانے پینے والا کوئی نارمل آدمی یا عورت تو نہیں ہو سکتے… اس قسم کے کمزور ارادہ اور ذہنی بیمار لوگوں کو کسی بھی قسم کا عہدہ یا ذمہ داری کیسے دی جا سکتی ہے… یا ایسے لوگوں کی باتوں کا بھی کیا اعتبار کس نشے میں کی گئی ہوں… نشہ آور لوگ خود کو گناہ گار نہ سمجھیں تو ٹھیک لیکن آئین کے لحاظ سے قانون کے مجرم ہیں، چاہے وہ کوئی بھی نشہ ہو…
.
لیکن کس کس کو پکڑیں… زرداری، پرویز مشرف، شاہ محمود قریشی، بلاول زرداری، عتیقہ اوڈھو، وڈیرے، چودھری، سردار، جرنیلز، پرانے نۓ اداکار گلوکار شاعر وغیرہ وغیرہ… 
ایسے لوگوں کو انسانوں کے بنیادی حقوق تو دے جا سکتے ہیں، بنیادی احترام بھی کیا جا سکتا ہے، انکے ساتھ ملازمت اور کاروبار بھی کیا جا سکتا ہے… لیکن ان سے میل جول رکھنے، ساتھ مل بیٹھنے، وقت گذارنے کو کس کا دل چاہے گا… خیرامیروں کی حرکتوں سے تو الله سبحانہ و تعالی خود ہی نمٹ لیں گے… انکو تو ڈھیل ملی ہوئی ہے… 
.
ہاں غریبوں کو رسول صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے قصّے سناۓ جا سکتے ہیں کہ ان پر تو کیا کیا گذرا لیکن انہوں نے الله کی حدود کو پامال نہیں کیا… لیکن آج ہم نے غربت کا معیار روٹی، کپڑے، مکان اور اختیار کا نہ ہونا رکھ دیا ہے… کوئی محنت کر کے دو روٹی کما ۓ تو اس پر اتنا ترس کھاتے ہیں کہ وہ اپنی کوششوں پر شرمندہ ہو جاۓ… اور سوچے کہ وہ دنیا کا ناکام ترین آدمی یا عورت ہےکیونکہ اسکے بچے برگر اور پیزا نہیں کھاتے، گاڑیوں میں نہیں پھرتے… انھیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ با اختیار اور کامیاب لوگ وہ ہیں جن کے آگے پیچھے چارتعریفیں کرنے والے خوشامدی یا فینزہوں، انکے لئے ہزاروں لوگ نعرے لگائیں اور اپنی قیمتی زندگی قربان کرنے کا عہد کریں… انکی تقدیر بدلنے کے نام پر انکو لوٹیں… پتہ نہیں کونسے اختیار اور کونسے انصاف کا لالچ دیتے ہیں…
.
الله سبحانہ و تعالی سورہ الرعد میں فرماتے ہیں کہ…”بے شک دلوں کو اطمینان الله ہی کے ذکر سے ملتا ہے”…
.
اور پاکستان کے سیاست دان ظلم اور دہشت کا نظام لا کر اور لبرل لوگ قرآنی احکامات کے خلاف دلیلیں لا کر انسانوں کو اسی یاد سے دور کردینا چاہتے ہیں… حتی کہ دینی جماعتیں اپنے عالموں اور لیڈرز کو خدا سے آگے لے آتے ہیں… جبھی تو اتنی ایجادوں اور اتنی سہولتوں کے باوجود دلوں کو سکون میسر نہیں…
.
.PRESIDENTS OF ISLAMIC REPUBLIC OF PAKISTAN VIOLATING QUR’AN AND CONSTITUTION
……………………………………………………………………………………………….